میں اس ذیشان کی ماں ہوں جس کو سانحہ ساہیوال کے واقعے میں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے میں نے اس بچےکو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر پالا تھا مجھے خوشی تھی کہ میرے بیٹے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گۓ ہیں زندگی میں سکون ہو گیا تھا مگر جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے میری بھوک پیاس نیند سب رخصت ہو گئی ہے
اس معاشرے میں بیوہ عورت کی زندگی بہت دشوار ہو جاتی ہے اور اگر بیوگی غربت کے ساتھ ہو تو اس کو گزارنا ایک عزاب سے کم نہیں ہوتا گود میں بھوک سے روتے بلکتے بچے اور تنہائی کا کوب وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ اذیت گزاری ہوتی ہے جس وقت ذیشان کے والد کا انتقال ہوا تو میری گود میں عمران بہت چھوٹا تھا جب کہ ذیشان بھی پاؤں پاؤں چلنے کے قابل تھا
میرے بیٹے کو دہشت گرد نہ کہو
میں کیسے یہ برداشت کر لوں کہ لوگ مجھے دہشت گرد کی ماں کہہ کر پکاریں اس کی معصوم بیٹی کا کیا قصور ہے جس کو لوگ دہشت گرد کی بیٹی کہہ کر پکارتے ہیں مجھے اپنے بیٹے کی موت کے بدلے میں ایک پیسہ نہ دو روٹی دینے والی ذات تو اللہ کی ہے اس نے آج تک بھی میرے یتیم بچوں کو روٹی دی ہے مگر میری آپ سب سے صرف ایک التجا ہے کہ میرے بیٹے پر سے دہشت گرد ہونے کا الزام ہٹا دو
ہندوستان کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو تو زندہ گرفتار کر لیا تھا کیا میرے بیٹے کو زںدہ گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا میرے گھر پر تو کوئی گیراج بھی نہ تھا میرے بیٹے کی گاڑی تو صبح شام گھر سے باہر ہی کھڑی ہوتی تھی اس کو گولیاں مارنے کے بجاۓ اس کو زندہ پکڑ لیتے اس طرح گولیاں تو نہ مارتے
میں نے لوگوں کے برتن مانجھ مانجھ کر اس کو بڑا کیا تھا اب دہشت گردی کا الزام لیۓ کیسے قبر میں جاؤں مجھے اس حکومت سے اور کچھ نہیں چاہیۓ بس میرے بیٹے کو اب دہشت گرد کہہ کر نہ پکاریں مجھ بوڑھی عورت پر صرف اتنا احسان کر دیں