سخت سردی میں اسکول جانے والے طالبعلموں کے لیے خوشخبری کا امکان

اسکول جانا ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ ریاست کے ساتھ ساتھ ہر ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بناۓ کہ اس کا بچہ نہ صرف تعلیم حاصل کرے بلکہ وہ محفوظ بھی رہے یہی وجہ ہے کہ جب کبھی حالات میں کوئی اتار چڑھاؤ آتا ہے تو سب سے پہلے ریاست کی جانب سے اسکولوں کی تعطیلات کا اعلان ہو جاتا ہے کیونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ۔

پاکستان کے اسکول میں گرمی سردی کی تعطیلات اور اہم شخصیات اور اہم تہواروں پر چھٹی کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر بھی اسکول  بند رکھے جاتے ہیں ۔

ایک جائزے کے مطابق سال کے 365 دنوں میں سے اسکول میں تعلیم کا سلسلہ بمشکل 120 دن تک ہی ہو پاتا ہے ۔جو کہ بہت کم ہے ۔

1

اتنے کم دنوں کے باوجود پچھلے کچھ سالوں سے ایک نیا رجحان بھی سامنے آيا ہے اور وہ ہے مزید چھٹیوں کے مطالبے کا، عموما سردی اور گرمی کی تعطیلات کے بعد جب موسم کی سختی میں شدت ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ چھٹیاں بڑھا دی جائيں اور اس مطالبے کو مانتے ہوۓ ریاست چھٹیوں میں اضافے کا اعلان کر دیتی ہے ۔

گرمی اور سردی کی چھٹیوں کا جو شیڈول اس وقت رائج ہے اس کا آغاز صاحب انگریز نے اس وقت کیا تھا جب ہم اس کے غلام ہوا کرتے تھے اور انہوں نے اپنے اساتذہ کے انگلینڈ جا کر چھٹیاں منانے کے شیڈول کو دیکھتے ہوۓ اس کو نافذ کیا تھا ۔

مگر بدقسمتی سے غلامی سے جان چھٹے تو تقریبا ستر سال ہو گۓ مگر ہم آج تک اپنا کوئی شیڈول بنانے میں ناکام رہے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد موسمی تبدیلیوں کے متعلق ہمیں وقت سے پہلے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے مگر پھر بھی ہمارے اداروں کی باہمی روابط کی کمی کے سبب ہمارے ملک میں اسکول کی  گرمی کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد گرمی پڑتی ہے اور سردی کی شدت میں اضافہ سردی کی تعطیلات کے بعد ہوتا ہے جس کے بعد مزید چھٹیوں کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے ۔

2

ان حالات کو دیکھتے ہوۓ وزارت تعلیم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسکول کی چھٹیوں کے اس شیڈول کا نئے سرے سے جائزہ لے اور پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی تعطیلات کا اعلان اس علاقے کے موسمی حالات کو دیکھتے ہوۓ کریں ۔

صاحب بہادر کا جاری کردہ شیڈول موسمی تبدیلیوں کے سبب اب فرسودہ ہوتا جا رہا ہے لہذا اس شیڈول میں فوری طور پر تبدیلی کی جاۓ ۔

To Top