صاحب اسراء ؛ امام مسجد کی بیٹی،ایک ایتھلیٹ،ایک مثال،ایک روشن مستقبل

امام مسجد کی بیٹی

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی۔۔ کون کہتا ہے کہ بیٹیاں  باپ کا بازو نہیں  بن سکتیں ، باپ  کو سہارا نہیں دے سکتیں۔ آج  ہم یہاں ایک ایسی بیٹی کی بات کریں گے جو صرف اپنے باپ  کا ہی نہیں پورے پاکستان کا فخر ہیں ا ور انہیں یہ اعتماد اور یہ مان دینے والے ان کے والد ہیں جو پیشے کے اعتبار سے امام مسجد ہیں۔ جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں پاکستان کی تیز ترین ایتھلیٹ کا اعزاز حاصل کرنے والی  صاحب اسراء کی جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور ریسنگ ٹریکس پر دوڑنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں.

صاحب اسرء

The Express Tribune

امام مسجد کی بیٹی صاحب اسراء کی جدوجہد اور کامیابیاں

صاحب اسراء نے صرف 100 میٹر ہی نہیں بلکہ 200 اور 400 میٹر ریس میں بھی سونے کے تمغے  بھی حاصل کئے ہیں اور وہ ایک انٹرنیشنل لیول کی  پلیئر ہیں۔

پاکستان کی اس بہادر بیٹی سے PARHLO کی ٹیم نے رابطہ کیا اور اپنے قارئین  کے لیے ایک انٹرویو لیا  ہے۔ دوران انٹرویو صاحب اسرا سے چند سوالات کیے گئے کہ  انہوں نے کیسے اس  فیلڈ کا انتخاب کیا اور خاص طو ر  پر ایک امام مسجد  قاری عالم خان کی بیٹی ہونے کے ناتے ان کو اور ان کے والد کو  کن  مشکلات کا سامنا  کرنا پڑا ؟

 پاکستان میں لڑکیوں کا کھیل کے میدان میں آگے آنا مشکل ہوجاتا ہے توآپ کیسے یہاں تک پہنچیں؟

ہمارے اس سوال کے جواب میں صاحب اسرا ء کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں خصوصاً جہاں لڑکیوں کا لڑ کوں کے ساتھ کھیلنا ایک معیوب بات سمجھی جاتی  ہے اور پھراگر آپ کا تعلق  مذہبی گھرانے سے ہو تو اور زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کے خیال میں پیش امام کی بیٹی  صرف حافظہ بن سکتی ہے یا گھر میں رہ سکتی ہے۔ مگر وہ  اپنے والد،والدہ،اساتذہ اور گھر والوں کی مکمل سپورٹ کے بعد آج اس مقام پر پہنچی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کے والد کو بہت تنقید کا سامنا رہا ۔ لوگ باتیں بھی بناتے تھے (ہا۔۔۔!!!مذہبی  گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی  اب اسپورٹس میں حصہ لے گی؟) مگر ان کے والد نے ہمیشہ ان کا حوصلہ بڑھایا۔

اماممسجد کی بیٹی

Twitter

والد نے کیسے سپورٹ کیا اورانہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

صاحب اسراء کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے دوسرے اسکولوں میں جاکر کامپٹیشن میں حصہ لینے کا کہا تو پہلے پہل ان کے والد نے ان کو اسپورٹس میں حصہ لینے سے منع کردیا مگر ان کے عزم وحوصلے،سچی لگن اور شوق نے ان کے والد کو خود ان کی ڈھال بنا دیا مگر اپنی بیٹی کی ڈھال بننے والے اس باپ نے  لوگوں کی ہر تنقید کا سامنا کیا۔ ان کی نکتہ چینی کو بڑے حوصلے اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن صاحب اسراء کے خواب ٹوٹنے نہ دیے۔

وہ کہتی ہیں  کہ جب وہ اس فیلڈ میں آئیں تو ا ن کے والد اور گھر والوں کے علاوہ کسی نے بھی ان کی حمایت نہیں کی۔ بلکہ ان کے والد کو امام مسجد ہونے کے طعنے بھی  دیے گئے اور ان کی بے تحاشا دل آزاری کی،مگر ان کے والد نے دنیا کا کوئی پتھر،کوئی تنقید اپنی بیٹی تک نہ پہنچنے دی .

صاحب اسراء ایتھلیٹ

Twitter

اسپورٹس میں حصہ  لینا آپ کی اپنی خواہش تھی یا آپ کے والد کی؟

صاحب اسراء نے  PARHLO کو جواب دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی ریس لگانے اور ایسے اسپورٹس دیکھنے کا شوق تھا ،ایتھلیٹ بننا ان کی خواہش تھی جو  بعدمیں ان کے والد کی خواہش بھی بن گئی۔ انہیں ان کے والد نے پڑھائی اور خصوصاً کھیلوں جیسی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ان کا ساتھ دیا۔ بڑی بیٹی ہونے کے ناتے وہ  اپنے بابا کا دایاں بازو ہیں اور ان کے بابا  انہیں اپنے بیٹے سے کسی طور کم نہیں سمجھتے۔ اور وہ ان پر بھی اتنا ہی فخر کرتے ہیں جتنا اپنے بیٹے پرانہیں مان ہے۔

والد ین،اساتذہ اورگھر والوں کے  دیے گئے  فخر نے  ان کو اعتماد دلایا کہ وہ اپنے بابا کا بیٹا اور سہارا  بن سکتی ہیں  اور پاکستان کا نام بھی روشن کر سکتی ہیں۔ صاحب  اسراء کا خواب تھا کہ وہ ایک کامیاب ایتھلیٹ کے طور پر ابھریں اور ان لوگوں کو  اپنی کامیابی سے جواب دیں جو امام مسجد قاری عالم خان کو بیٹی کو کھیلوں میں حصہ لینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

صاحب اسراء

Twitter

  قاری عالم خان  نے اپنی بیٹی کو  کیا نصیحت کی؟

صاحب اسراء نے بتایا ان کے والد نے ان کو ہمیشہ ان کی پڑھائی اور ان کے کیریر  پر توجہ رکھنے کی تلقین کی ، لوگ کیا کہتے ہیں کیا نہیں وہ اس کی پرواہ نہ کریں اور صرف اپنے مستقبل کی طرف دھیان دیں۔ ان کے والد نے ان کو ہمیشہ یہی کہا کہ وہ  اپنی اسپورٹس مین اسپرٹ کو برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کی تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور یہی ایک کھلاڑی کی جیت ہے۔

مزید پڑھیے: اقبال کے شاہینوں کی اونچی اڑان،نسٹ نے کورونا کٹس،ڈرون اور ٹینک تیار کر لیے

صاحب اسراء کا پیغام

پاکستانی والدین کے نام پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ  اگر ان کی  بیٹیاں کھیل کے میدان میں  آنا چاہتی ہیں اور ان میں اتنی لگن ہے تو ان کے گھر والے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنی بیٹیوں کو یہ سوچ کر نہ روکیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ انہیں ہر مرحلے پر سپورٹ  کریں چاہے وہ کھیل کے میدان ہی کیوں نا ہوں۔ اس سے نا صرف ملک میں ٹیلنٹ کا اضافہ ہوگا بلکہ ملک کا نام بھی روشن ہوگا۔

To Top