نظم – گزر گئیں صدیاں اِک ملاقات کے بعد

گزر گئیں صدیاں اِک ملاقات کے بعد
کاش کہ آجــاۓ وہ مدا رات کے بعد

عــــجـب ربــط تھا روح و جـــسم کا
بہتی تھیں آنکھیں ہر برسات کے بعد

تھے لمحے قیامت کی مــــنظر کےمـگر
فضول تھے گِلے شکوے مناجات کےبعد

تھی صــبح میں اطہرِ شــبنم کی بہار
تنہا تھی خاموشی مہرباں رات کے بعد

عُمیــر فیــضِ گُل کی تمنہ لیے ہوۓ
سُنا آۓ شـــِکست اپنی بات کے بعد

انقلاب کتاب کی وجہ سے نہیں ہمیشہ صاحب کتاب کی وجہ سے آیا ہے

To Top