گزر گئیں صدیاں اِک ملاقات کے بعد
کاش کہ آجــاۓ وہ مدا رات کے بعد
[adinserter block=”15″]
عــــجـب ربــط تھا روح و جـــسم کا
بہتی تھیں آنکھیں ہر برسات کے بعد
تھے لمحے قیامت کی مــــنظر کےمـگر
فضول تھے گِلے شکوے مناجات کےبعد
[adinserter block=”15″]
تھی صــبح میں اطہرِ شــبنم کی بہار
تنہا تھی خاموشی مہرباں رات کے بعد
عُمیــر فیــضِ گُل کی تمنہ لیے ہوۓ
سُنا آۓ شـــِکست اپنی بات کے بعد
