امتحان کا لفظ اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ جب بھی اس کا خیال آتا ہے رونگٹھے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ میرا شمار اوسط درجے کے طالب علموں میں ہوتا ہے۔ میں ماشا اللہ اپنے تئیں ذہانت کی معراج سے کم پر فائزنہیں ہوں مگر بھلا ہو اس ہمارے امتحانی نظام کا جس نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ ہر اخبار اور ویب سائیٹ پر رول نمبر کی صورت میں ہماری ناکامی کے چرچے ڈال رکھے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ہم اچھا رٹا نہیں لگا سکتے ۔
اب آپ خود بتائیں کہ کیا آپ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا امتحانی نظام ذہانت کو جانچنے کا بہترین نظام ہے؟جواب ملے گا نہیں اس نظام کے ذریعے تو ہم خالی یہ جانچتے ہیں کہ مذکورہ نصاب کتنے فی صد تک طالب علم کی نازک عقل میں داخل ہو سکا یا بھر ہمارے مطابق یہ چیک کیا جاتا ہے کہ طوطے نے کتنا سبق رٹ لیا ہے؟
اور جو کوئی میری طرح رٹنے کی خوبی سے آراستہ نہ ہو وہ پھر زندگی میں اس وقت تک ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرے جب تک اس پر طالب علم نامی دھبہ لگا ہوا ہے۔ ہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جیسے ہی رٹا لگانے والے لوگ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں زندگی ان کے لئے پھولوں کی سیج بن جاتی ہے کیونکہ ان کی اس رٹا فیکیشن نامی طریقہ کار سے جان چھٹ جاتی ہے ۔
سنا تھا سب کہتے تھے کہ بس بیٹا انٹر تک رٹ لو اس کے بعد تو یونیورسٹی میں سیمسٹر نظام ہے جہاں رٹنا نہیں پڑھنا پڑے گآ ۔ہم نے بھی اپنی تمام زنگ آلود ذہانت کو نکال کے پہلے تو گریس لگا کر نرم کیا اور پھر اس کو پالش کر کے نئے کی طرح چمکا دی ۔ ویسے راز کی بات ہے ہماری ذہانت بالکل نئی کی نئی پڑی تھی ۔استعمال کرنے کی ضرورت جو کبھی نہیں پڑی تھی ۔ اب ہم اپنی ذہانت کو یونیورسٹی میں استعمال کرنے کے لئے بالکل تیار تھے ۔ کلاس کے دوران اپنے سوالوں کے ذریعے سر کے دماغ کی خوب چولیں ہلاتے اور خود کو راجہ اندر سمجھتے تھے۔
لگا تھا کہ یہاں امتحان بھی اسی طرح باتوں باتوں میں لے لئے جائیں گے مگر جب امتحان کی ڈیٹ شیٹ کے ساتھ کورس آوٹ لائن ملی اور پتہ چلا کہ یہاں بھی وہی رٹا لگے گا تو امیدوں پر اوس پڑگئی اور تہیہ کر لیا کہ ا پنے جیسے ذہین طالب علموں کے لئے ایک نیا امتحانی نظام رائج کروا کر ہی دم لوں گا جس کی بنیاد رٹے پر نیں بلکہ ذہانت پر ہو گی ۔