روایتوں کی زنجیروں میں قید بہن بھائیوں کی کہانی ۔ جن کی بربادی کا سبب کوئی اور نہیں ان کے ماں باپ تھے

میرے والد ستر کی دہائی میں روز گار کے ارادے سے کراچی آۓ اور پھر اسی جگہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اس زمانے میں کراچی کا شہر ایک ماں کی گود جیسا تھا جو ہر صوبے کے آنے والے کو اپنی گود میں پناہ دے کر چھپا لیا کرتا تھا ۔ روزگار کا بندوبست ہوتے ہی میرے والد نے میری ماں کو بھی یہیں بلا لیا اس وقت میری امی کی گود میں صرف ایک ہی بیٹی یعنی میری بڑی بہن صرف ایک سال کی تھی ۔

اس کے ایک سال بعد میرے بھائي کی پیدائش ہوئی اور اس سے اگلے سال میں نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ۔کراچی میں آباد ہونے کے باوجود ہمارا رابطہ ہمارے آبائی گاؤں ہزارہ سے بحال رہا کیوں کہ وہاں میرے امی ابو کے والدین اور دیگر خاندان والے آباد تھے چھٹیاں عید تہوار ہم سب وہیں جا کر گزارتے تھے ۔


جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گۓ اور اسکولوں میں جانا شروع کیا تو آبائی گاؤں جانے کا سلسلہ بھی ہماری اسکول کی چھٹیوں سے مشروط ہوتا گیا مگر اس کے باوجود ہم گھر میں اپنی آبائی زبان ہی بولتے تھے کیوں کہ ہمارے ابو کا یہ ماننا تھا کہ اپنی جڑوں کو چھوڑ کر کوئی بھی پودا سیراب نہیں ہو سکتا ۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہو لوگ عمر کا سفر طے کرتے کرتے جوانی کی حدود میں داخل ہو گۓ میرے والد نے اپنی قبائلی روایات کے مطابق میری بہن اور بھائی کا رشتہ وٹے سٹے میں کر دیا تھا اور اسی سال دونوں کی شادی کا بھی ارادہ تھا ۔میری بھابھی اگرچے بہت کم عمر تھی اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی مگر ہمارے علاقے کی روایات کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔

میری بھابھی جو میری فرسٹ کزن تھی رخصت ہو کر جب ہمارے گھر آئی تو اس کی معصومیت دیکھ کر اور کم عمری کو دیکھتے ہوۓ کراچی والوں نے ہمیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا مگر میری امی نے یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کی عمر بھی یہی تھی کراچی آنے کے بعد جب پہلی رات حجلہ عروسی سجا کر نۓ جوڑے کو ہم کمرے میں چھوڑ کر آۓ تو کچھ دیر بعد ہی اس کمرے سے رونے دھونے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں

میری امی ہڑبڑا کر اٹھ کر بھائی کے کمرے میں گئیں تو بھائی تو غصے میں کمرے سے باہر چلا گیا جب کے میری والدہ میری بھابھی کو بہلا کر میرے کمرے میں لے آئیں وہ بری طرح خوفزدہ تھی میری امی نے مجھے کہا کہ اس کو اپنے پاس سلاؤ صبح اٹھ کر اس کا کچھ کرتے ہیں اس کے بعد صبح ہوتے ہی گھر میں ایک نیا جھگڑا شروع ہو گیا میرا بھائی شدید غصے میں تھا

اس کا کہنا تھا کہ امی ابو نے اس کی زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے جواب میں میرے ابو نے کہا کہاتحمل رکھو کم عمر ہے کچھ دنوں میں ہی سیٹ ہو جاۓ گی ۔ اس کے بعد میری امی نے میری معصوم سی بھابھی کو بہلا پھسلا کر سمجھانا شروع کیا اور اس کو شادی اور میاں بیوی کے درمیان کے تعلق کے بارے میں بتایا مگر وہ گاؤں کی لڑکی کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھی اور ایک ہی ضد لگا کر بیٹھی تھی کہ اس کو اپنے ماں باپ کے پاس جانا ہے

رات ہوتے ہی امی نے بھابھی سے کہا کہ اگر آج رات تم شور نہ کرو اور بھائی جو کرے کرنے دو گی تو ہم تمھیں گاؤں تمھارے امی ابو کے پاس بھجوا دیں گے جس پر وہ ڈرتے ڈرتے دوبارہ بھائی کے کمرے میں جانے کے لیے تیار ہو گئی مگر اس رات بھی گزشتہ رات والی کہانی ہی دہرائی گئی اور روتی ہوئی وہ معصوم بچی پھر کمرے سے باہر تھی اس بار میرے بھائی نے غصے میں اس کو مارا بھی تھا جس سے وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو گئی

اب امی ابو نے بھائی کو کہا کہ تم پہلے کوشش کرو کہ وہ تمھارے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے جاۓ تاکہ اس کا تمھاری جانب س خوف کم ہو سکے مگر وہ تو بھائی سے اس حد تک خوفزدہ ہو چکی تھی کہ میرے بھائی کو دیکھتے ہی چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگتی آخر کار تنگ آکر امی ابو نے اس کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا

اس کے واپس جاتے ہی وہی ہوا جس کا امی ابو کو ڈر تھا اگلی ہی گاڑی سے میری بہن بھی ہاتھ میں طلاق نامہ تھامے ہمارے در پر موجود تھی ۔ میری امی ابو کے ایک غلط فیصلے سے نہ صرف میری بہن برباد ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میرے بھائی کی زندگی بھی برباد ہوئی

میرے ماں باپ کے ایک غلط فیصلے نے ہم تینوں بہن بھائیوں کو برباد کر ڈالا کیوںکہ خاندان میں ایک دفعہ رشتہ ٹوٹنے کے بعد میرا رشتہ اب کوئی نہیں کرۓ گا اور خاندان سے باہر ہمارے ابو کریں گے نہیں ۔ آخر کب تک ہم لوگ ان رسوم کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے

To Top