کیا آپ قرآن کی ان آیات کے بارے میں جانتے ہیں جن پر عمل کر کے انسان اپنی زندگی بدل سکتی ہیں

قرآن میں انسان کی رہنمائی کے لیۓ تمام ہدایات موجود ہیں جو ان کی دینی اور دنیوی زںدگی کی کامیابی کی کنجی ہیں ۔ویسے تو پورا قرآن ہی انسان کی رہنمائی کا منبع ہے مگر اس  کی چند آیات ایسی بھی ہیں جن کو پڑھنے سے انسان کی نہ صرف مشکلات کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس پر رحمتوں اور برکتوں کی بارش بھی ہوتی ہے

اللہ پرہیز گاروں کی آزمائش کرتا ہے

اگر موجودہ حالات میں دیکھا جاۓ تو مسلمان کئی قسم کی مشکلات کا شکار ہیں ان مسائل میں معاشرتی ،معاشی اور دیگر مسائل شامل ہیں ان پریشانیوں کو دیکھتے ہوۓ انسان میں اس بات کا سوال پیدا ہونا لازم ہے کہ جب مسلمان ایک اللہ کو ماننے والے ہیں حرام اور حلال کی تمیز رکھتے ہیں قرآن اور سنت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو پھر ان پر تو اللہ کی جانب سے انعامات کی بارشیں ہونی چاہیۓ ہیں جب کہ اس کے برخلاف اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ آزمائش کا شکار مسلمان ہی ہیں تو اس کے جواب میں قرآن سورۃ العنکبوت میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوۓ فرماتا ہے

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْـرَكُـوٓا اَنْ يَّقُوْلُوٓا اٰمَنَّا وَهُـمْ لَا يُفْتَنُـوْنَ (2)
کیا لوگ خیال کرتے ہیں یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔
اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ ایمان لاۓ ان پر آنے والی پریشانیاں درحقیقت ان پر اللہ کی جانب سے بھیجی جانے والی آزمائش ہے جس کا انعام ان کو بارگاہ خداوندی کی جانب سے دیا جاۓ گا

اللہ پر یقین رکھیں

ایک اور بات جو عام طور پر دیکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب مسلمان کسی بھی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ ایسے موقع پر اللہ سے مدد مانگنے کے بجاۓ ادھر ادھر آسرے اور وسیلے تلاش کرتے ہیں جب کہ اس حوالے سے اللہ تعالی واضح طور پر انسانوں کی رہنمائی فرماتے ہیں

اور ‍قرآن پاک میں سورۃ الطلاق کی تیسری آیت میں اللہ تعالی کا واضح حکم ہے کہ

وَيَرْزُقْهٝ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٝ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۚ قَدْ جَعَلَ اللّـٰهُ لِكُلِّ شَىْءٍ قَدْرًا (3)
اور اسے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے، بے شک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک پیمائش مقرر کر دی ہے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی انسان کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے اللہ تعالی اس کو ضرور دے گا اس سبب اس کو اللہ تعالی پر یہ یقین رکھنا ہو گا کہ اس کو دینے والا ذات اس کے حال سے ناواقف نہیں ہے اور نہ سب جانتا ہے

کردار میں نرمی پیدا کریں

اگرچہ ایک مسلمان کی زندگی کا رخ اللہ ہی کی جانب ہونا چاہیۓ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی لازم ہے کہ اس پر حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی واجب ہیں اللہ تعالی اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے مگر بندوں کے حقوق پورے کرنا ہر مسلمان ہر مسلمان پر واجب ہیں ۔ اسی سبب انسان کو اپنے کردار میں وہ سب خوبیاں  پیدا کرنا لازم ہیں جس کے ذریعے وہ دوسرے مسلمانوں کے دل میں اچھی جگہ بنا سکے ۔

کردار کی بہتر تعمیر کے حوالےسے قرآن سورۃ البقرہ میں مومنین کی رہنمائی فرماتے ہوۓ بتاتا ہے کہ

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَيْـرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَّتْبَعُهَآ اَذًى ۗ وَاللّـٰهُ غَنِىٌّ حَلِـيْمٌ (263)
مناسب بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو، اور اللہ بے پروا نہایت تحمل والا ہے۔
اس سورت سے واضح ہوتا ہے کہ ایک جانب تو انسان کی گفتگو ایسی ہونی چاہیۓ جو دوسرے کی دل آزاری کا موجب نہ بنے اور دوسری جانب انسان کے کردار کے اندر درگزر کرنے کی بھی خصوصیات ہونی چاہیے جس سے وہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر سکے

اللہ تعالی سے عاجزی سے دعا مانگیں

اکثر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف فرائض کی ادائگی اور حرام اور حلال سے بچ کر انسان اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے تو یہ غلط ہے جب کہ اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بندہ اپنی ضروریات کے لیۓ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاۓ اور اس کے سامنے گڑگڑاۓ ۔ بندے سے اللہ تعالی کے رابطے کی مضبوطی کے لیۓ یہ لازم ہے کہ بندہ اللہ کے اختیار کو تسلیم کرے سورہ بقرۃ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِـىْ وَلْيُؤْمِنُـوْا بِىْ لَعَلَّهُـمْ يَرْشُدُوْنَ (186)
اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پھر چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

غیبت سے پرہیز کریں

انسانی طرز معاشرت کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہیۓ کہ اس کے اندر منافقت نہیں ہونی چاہیۓ ۔ اس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہونا چاہیۓ ۔ ایک مومن کبھی بھی دوسرے مومن کی برائی کسی تیسرے فرد کے  سامنے نہیں کرۓ۔یعنی غیبت نہ کرے

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّۖ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْـمٌ ۖ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْـمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ رَّحِـيْـمٌ (12)
اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔
ایک مومن کے کردار کی بہترین تعمیر کے لیۓ ضروری ہے کہ انسان قرآن کی ان پانچ آیات کے مطابق اپنی زندگی کو گزارے اگر انسان ان آیات کی مثالوں کو اپنے سامنے رکھے تو اس کے لیۓ بہتر ہے کہ وہ دین اور دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے
To Top