قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے کچھ ایسے واقعات جو ایک مثال ہیں

قائد اعظم محمد علی جناح جن کو یہ شکر گزار قوم بانی پاکستان کے نام سے بھی پکارتی ہے ۔ 25 دسمبر 1876 میں کراچی میں پیدا ہوۓ ۔ ان جیسی شخصیت صدیوں میں کوئی ایک پیدا ہوتی ہے اور کسی قوم کو انعام کی صورت میں ملتی ہے ۔پاکستانی قوم اللہ کا جتنا شکر ادا کرے کم ہے کہ اللہ نے ان کو قائد اعظم سے نوازا ۔

قائد اعظم کی شخصیت ان خوبیوں اور خصوصیات کو مجموعہ تھی جو کہ مثالی تھے اور ان کو اپنا کر کوئی بھی شخص عظمت کے میناروں کو چھو سکتا ہے اور بحیثیت قوم ہم ان کو اپنا کر ایک عظیم قوم بن کر قائد کا خواب پورا کر سکتے ہیں

قائد اعظم کے نزدیک وقت کی اہمیت سب سے زیادہ تھی

وفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشست ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا ان میں کئی دوسرے وزراء سرکاری افسر کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولی گئی

قائد اعظم ایک بے مثال راہبر و رہنما تھے

الہ آباد یونی ورسٹی میں 1943 میں کانگریس اور مسلم لیگ کے طالب علموں میں یہ تنازعہ اٹھا کہ یونی ورسٹی میں پرچم کس پارٹی کا لہرایا جاۓ ۔ہندؤں کا یہ ماننا تھا کہ چونکہ ملک میں ان کی اکثریت ہے لہذا یونی ورسٹی میں پرچم بھی انہی کا لہرانا چاہیۓ ۔جب کہ مسلم لیگ کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ یونی ورسٹی میں مسلمان طالب علموں کی اکثریت ہے لہذا پرچم ان کا لہرانا چاہیۓ ۔

یونین کے الیکشن میں مسلم لیگ کی یونین کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ کے طالب علموں نے قائد اعظم سے رابطہ کیا کہ وہ مسلم لیگ کی یونی ورسٹی میں پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت کریں ۔ اس موقع پر قائد اعظم نے اپنی قوم کے معماروں کو ایک تاریخی جواب دیا انہوں نے فرمایا

اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نا زیبا حرکت ہے کوئی ایسی با ت نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے کیا یہ منا سب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔۔’

قائد اعظم کے نزدیک رشوت کا لین دین جرم تھا

ایک بار قائد اعظم سفر کر رہے تھے سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔

ٹکٹ ایگزامنر نے کہا آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں قا ئداعظم یہ سن کر طیش میں آگئے انہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکھٹے ہو گئے ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم اسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے بالاخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔۔

قائد اعظم نے ملک کا سربراہ ہونے کے باوجود عید کی نماز پچھلی صفوں میں پڑھی

یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوار منایا جانا تھا۔ عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں کو منتخب کیا گیا اور اس نماز کی امامت فریضہ مشہورعالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دینی تھی- قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا۔

مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ چناں چہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔

[adinserterblock=”15″]

ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی

 

To Top