بانیان مسلم لیگ و وراثان مسلم لیگ

پچھلے ایک سال سے پاکستان کی سیاسی صورتحال کافی غیر معمولی صورت اختیار کرچکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی ایک وجہ پانامہ لیکس کا حکومت پر دباؤ ہے۔ جو اس وقت نواز شریف انکے اہل خانہ اور انکی حکومت کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔

نواز شریف جن کا شمار پاکستانی سیاسی بساط کے مانے ہوئے چند گھوڑوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی شخص تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوا۔ جو میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور سیاسی گڑھ جوڑھ کی بڑی دلیل ہے۔

البتہ پانامہ لیکس ایک ایسا سیاسی طوفان ہے جو میاں نواز شریف کی ناصرف سیاسی انگیز کا خاتمہ کرسکتا ہے بلکہ آئندہ انتخابات میں انکی پارٹی کی سیاسی بقاء پر بھی آنچ ڈال سکتا ہے آسان الفاظ میں کہا جائے تو قومی سیاست میں بڑی تبدیلی کے قوی امکانات ہے ۔

اگر ہم ما ضی میں جائے اور میاں صاحب کی سیاست کا جائزہ لیں تو ہمیں انداذہ ہوتا ہے کہ جب جب پاکستان میں میاں صاحب کی حکومت آئی، ہر بار کرپشن جیسے موضی معاملات ان کو گھیر لیتے ہیں ۔ میاں صاحب کی پہلی حکومت جس کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرپشن کے ہی الزامات میں گھر بھیج دیا۔ کیونکہ تحقیقات پر معلوم ہوا آشیانہ ہاؤسنگ سے لیکر کشکول توڑو اور ملک سواروں میں عربوں روپے کے غبن میں براہ راست تانے بانے نواز شریف ، انکی حکومت اور اتفاق گروپ آف کمپنیز سے ملتے رہے۔

اگرچہ میاں صاحب کا یہ دعوہ کہ وہ قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اصلی وارث ہیں اور جو مسلم لیگ اور قائداعظم کا خواب تھا وہ اس ہی خواب کی تعمیر نو میں مصرف عمل ہیں۔ البتہ وہ یہ بھول گئے کہ مسلم لیگ کے تمام رہنماؤں نے ترقی کے عمل میں سب سے پہلے اپنے گھروں سے قربانی دی کسی نے اپنے بچے کھوئے ، تو کسی نے اپنی جائیداد کھوئی اور کسی نے اپنی جاگیرداری اور نوابی کھوئی کیونکہ ان سب کا مقصد صرف پاکستان تھا۔

اگرچہ نواز شریف صاحب نے سیاست میں کھویا کم البتہ اسکے زریعے اپنی جائیداد اور کاروبار کو وسعت ضرور دی۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں سیاست میں آنے سے قبل میاں صاھب صرف ۲ فیکٹریوں کے مالک تھے البتہ موصوف آج سیاست کے کرم سے ۴۰ کے قریب فیکٹریوں کے مالک ہیں ۔ اپنے کاروبار کو بڑی حد تک اندرون و بیرون ملک وسعت دے چکے ہیں، کھربوں روپے کی جائیداد بناچکے ہیں اور اب پانامہ کی آف شور کمپنیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

حد یہ کہ پانامہ لیکس کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ۲ معزز سینئر ججز یہ تک کہہ چکے ہیں وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے ہیں اگرچہ ہم مسلم لیگ اور بانیان پاکستان جن میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح کا موازنہ میاں نواز شریف سے کریں تو یہ ایک گمان ہوگا۔

اگرچہ کچھ دیر کے لئے اگر میاں صاحب کے دعوے کو مان لیا جائے کہ وہ اس ہی مسلم لیگ کے صدر ہیں جو قائدعظم کی تھی تو ان کا موازنہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، لیاقت علی خان کا تعلق انڈیا کی ریاست ہریانہ سے تھا، وہ اپنے علاقے کے سب سے بڑے جاگیدار اور نواب تھے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی نوابی کا یہ الم تھا کہ جب وہ وکالت کی تعلیم کے لئے برطانیہ گئے تو ان کے گھر والوں نے ان کو ایک ذاتی ملازم، ایک ڈرئیور اور خنسامہ دے رکھا تھا، ان کے گھر میں روزانہ کوئی کھانا کھائے یا نہ کھائے لیکن ۵۰ سے ۱۰۰ لوگوں کا روز کھانابنتا تھا۔ ایک بار اگر کوئی کپڑا زیب تن کرتے تو پھر کبھی اس کو نہ پہنتے، ان کے گھر نوکروں چاکروں کی بڑی تعداد تھی۔

لیکن تقسیم ہند کے بعد انہوں نے نوابی اور وزارت اعظمی میں سے وزارت اعظمی کو چنا، قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے زمینوں کے بدلے کے لئے کلیم فارم جمع کروائے البتہ لیاقت علی خان نے سب کچھ چھوڑ کر آنے کے باوجود ایک انچ زمین کا کلیم تک جمع نہ کر وایہ۔ یہی نہیں ان کی شہادت کے بعد یہ بات قوم کے سامنے آئی کہ ملک کے وزیر اعظم کا نہ تو کوئی ذاتی بینک اکاؤنٹ موجود ہے، نہ ہی کوئی کاروبار اور نہ ہی کوئی زمین و جائیداد تھی۔

کسمہ پرسی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے در زی اور ایک کریانہ اسٹور کے بھی مقروض تھے ، ایک نواب جو زندگی میں ایک بار اگر کوئی کپڑا زیب تن کرتے تو پھر کبھی اس کو نہ پہنے والے نواب کے پاس شہادت کے وقت ۲ پھٹی ہوئی بنیان، ۳ پیوند والے پاجامے، ایک پوسکی کی قمیز اور ۳ ایچکن موجود تھی، ستم ظر یفی یہ کہ شہدت کے وقت انکے گھر پر کفن دفن تک کے پیسے موجود نہ تھے۔

جب ان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی سے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ خان صاحب اکثر کہتے تھے میں ایک غریب ملک کا وزیر اعظم ہوں ، مجھے نئے کپڑے ، کاروبار، زمین و جائیداد اور دولت جمع کرنا میرے لئے مناسب نہیں کیونکہ میرے ملک کے ہر شہری کو یہ سب چیزیں میسر نہیں ۔

اگر ہم قیام پاکستان سے قبل کے میاں صاحب کے خاندان کے مالی حالات کو دیکھیں تو شاید وہ دور دور تک ان کی خاک کے بارا بار بھی نہ تھے۔ لیکن آذاد ریاست کے خواب کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے سب کچھ اپنا قربان کر دیا۔

آج کے محب وطن ، وطن پرست ، پاکستان اور اس کی عوام کے ہمدرد بلکہ یوں کہے کہ صرف پاکستان کا درد رکھنے والے ، پاکستان پر مرمٹنے کے دعوے کرنے والے اور قائد اعظم کی مسلم لیگ کے وارث کا دعوی کرنے والے سیاست دانوں سے میری التجا ہے ، گزارش ہے کہ خدارا قائد اعظم کے پاکستان کو بچانے کے لئے، ا س کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے قائد ملت لیاقت علی خان کی تقلید کرتے ہوئے اپنی اپنی جائیداد پاکستان پر خرچ کردیں۔

بیرون ملک میں موجود جائیداد پاکستان لے آئیں۔ یقین مانیں قائداعظم کی روح خوش ہوجائے گی اور تمھارے خالی دعوے بھی کسی حد تک درست ہوجائیں گے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ بڑے بڑے محل و جائیداد اس پاکستان کی غریب عوام کے پیسوں سے کرپشن کرکے بنائے گئے ہیں۔

حق مہر میں 100 کتابیں! دلہن کے انوکھے مطالبے نےسب کو حیران کر دیا

To Top