مریم کے قتل کے ذمہ دار کون ؟ لالچ ،سوشل میڈیا یا والدین

عورت اور مرد کی محبت ایک فطری عمل ہے ۔ زندگی کے ایک خاص حصے میں پہنچنے کے بعد ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے ۔ کہ اس کی زندگی میں بھی کوئی ساتھی ہو جو اس کا خیال رکھے اس سے پیار کرے اور اس کی ضروریات کی تکمیل کرے ۔ اس خواہش کی تکمیل آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے بہت آسان ہوتا جا رہا ہے ۔

پچیس سالہ مریم جو کہ گجرات کی رہائشی تھی اس کی داستان بھی ایک ایسی ہی داستان ہے ۔وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی عام سی لڑکی تھی۔ جس کے خواب بہت بڑے نہ تھے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات جیسے نۓ کپڑے ، موبائل فون اور ان کا بیلنس یہ سب ایسی خواہشات تھیں جن کی تکمیل گھر والوں کو ایک بوجھ لگتی تھی ۔

مریم نے اپنی ان خواہشات کی تکمیل کے لۓ محمد علی نامی شخص سے راہ و رسم بڑھائی ۔محمد علی مریم کے بھائی کا دوست تھا ۔ جو کہ سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ ایک شادی شدہ انسان اور دو بچوں کا باپ تھا ۔ مئی 2016 میں اس دوستی کا آغاز ہوا جو رفتہ رفتہ محبت کے مضبوط تعلق میں بدلتا گیا۔

ستمبر 2016 میں جب محمد علی پاکستان واپس آیا تو ان دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا ۔ محمد علی نے مریم کے لۓ لاہور میں ایک گھر حاصل کیا ۔اور کورٹ میں اس سے نکاح کر کے چوری چھپے رات کے اندھیرے میں اسے لے کر لاہور آگیا ۔ اس دوران اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ اس کی بیرون ملک نوکری لگ گئی ہے لہذا وہ ملک سے باہر جا رہا ہے ۔

اس جوڑے نے دنیا کی نظر سے چھپ کر ایک دوسرے کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔ بھرے ہوۓ پیٹ اور بھری ہوئی جیب کے سبب ان کا ہر روز عید اور ہر رات شب برات تھی ۔ مگر رفتہ رفتہ جب پیسے ختم ہونے لگے تو ان کے درمیان آۓ دن جھگڑوں کا آغاز ہوگیا ۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ محمد علی کے مالک مکان نے کرایہ نہ دینے پر ان کو مکان سے بے دخل کر دیا ۔

اب یہی محبت ایک بوجھ بن گئی ۔ نتیجے کے طور پر محمد علی نے مریم سے ہمیشہ کے لیۓ جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کے لۓ اس نے پشاور سے ایک گن خریدی اور عارضی طور پر مریم کو اپنی کسی جاننے والی کے پاس چھوڑ کر واپس اپنی پہلی بیوی کے پاس چلا گیا۔

https://www.facebook.com/Noownews/videos/550797958605923/

جہاں اس کے دوست اور اس کے گھر والوں نے جب اس سے مریم کی گمشدگی کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔کچھ دن گھر والوں کے ساتھ رہنے کے بعد وہ دوبارہ مریم کے پاس آیا ۔ اور اس کو ایک گاڑی کراۓ پر لے کرنۓ گھر لے جانے کی بات کی ۔ گاڑی کے رخ کو اپنے آبائی گھر کی جانب جاتے دیکھ کر مریم نے وہاں جانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ دھمکی دی کہ اگر محمد علی نے اسے وہاں لے جانے کی کوشش کی تو وہ گاڑی سے چھلانگ لگادے گی۔

مجبورا محمد علی کو گاڑی کا رخ بدلنا پڑا اس نے گاڑی کا رخ ایک سنسان جگہ کی طرف کر دیا ۔دولت نگر کے علاقے سراۓ ڈھنگ پہنچ کر اس نے مریم سے کہا کہ کچھ دیر وہاں آرام کر لیتے ہیں گاڑي سے اترنے کے بعد اس نے مریم پر گولیاں برسا دیں اور اس کو ہلاک کر دیا ۔

اس کے بعد اس نے لاش کے پاس سے اس کی شناخت کے تمام نشان مٹاۓ ۔دس ستمبر 2017 کو اس سنسان مقام سے جب پولیس کو ایک نامعلوم لاش ملی تو اس کی شناخت کرنا ایک دشوار عمل ثابت ہوا ۔مگر مریم کے فنگر پرنٹ کی مدد سے انہوں نے اس کی لاش کی شناخت کی اور اس کے بعد اس کے گھر والوں تک پہنچے ۔

اس کے گھر والوں سے پتہ چلا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے گھر سے غائب ہے اور اس کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اس کے گھر والے اس کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے ۔مریم کی والدہ نے اس موقعے پر اس کے محمد علی سے تعلقات کا بتایا ۔مگر اس کے گھر والوں سے پتہ کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بیرون ملک ملازمت کے لۓ مقیم ہے مگر جب پولیس نے ایف آئی اے سے معلومات کیں تو پتہ چلا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے باہر نہیں گیا ۔

اس کے بعد اس کی تلاش کا آغاز ہوا اور ایک مشکل جدوجہد کے بعد پولیس نے اس کو حراست میں لے لیا اور اس طرح قتل کی یہ لرزہ خیز داستان آخر کار اپنے انجام کو پہنچی ۔

To Top