کیا  پی ایس ایل اور ٹی ٹوئنٹی کا شور مچا کر کراچی والوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

ہم پاکستانی بھی عجیب ہیں۔ بہت جلد بہل جاتے ہیں اور یہ بات ہماری حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جن لوگوں پر راج کر رہے ہیں ان کو کس طرح مطمئن اور مست حال رکھنا ہے۔ کبھی صوبائی کلچرل ڈے، کہیں کوئی فوڈ فیسٹیول، کبھی کوئی دوسرا رنگا رنگ میلہ اور اب کرکٹ کا میدان سجا دیا گیا ۔ یہ سب یقیناً شہریوں کی تفریح کے لئے ضروری ہے اور کرکٹ کی واپسی ایک  اچھی روایت ثابت ہو گی، مگر۔۔۔۔۔

ایک بات جو میں نے محسوس کی وہ ہے کرکٹ میلے(پی ایس ایل)پر ہماری حکومت کا فخر اور غرور سر چڑھ کربول رہا تھا۔ اسے سندھ اور خصوصاً کراچی میں امن کی علامت، ایک مفید اور تعمیری سرگرمی کے ساتھ شہریوں کی دلچسپی کا محور بتایا جارہا  تھا۔ اور اب ٹی ٹوئنٹی کا شور مچا ہوا ہے۔

کرکٹ کا یہ مقابلہ یکم اپریل سے تین اپریل تک جاری رہے گا اور نیشنل اسٹیڈیم میں میچ کھیلا جائے گا۔ اس حوالے سے ایک مرتبہ پھر ٹریفک پولیس نے اہم شاہراہوں اور راستوں کی بندش کا پلان دے دیا ہے۔ ان مقابلوں کے بعد بھی یہ ظاہر یہی کیا جائے گا کہ حکومت شہریوں کی خوشیوں کا سامان کرنے میں کامیاب رہی اور پی ایس ایل کے بعد انھوں نے ٹی ٹوئنٹی کے مزے لوٹے۔

یہ غلط بھی نہیں۔ ایک بڑی تعداد کرکٹ کی شیدائی ہے اور ایسے مقابلے یقیناً تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مگر ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو کرکٹ مقابلے سے قبل سیکورٹی کے نام پر سڑکوں کی بندش، اسٹیڈیم کے اطراف عوام الناس کی گزرگاہوں پر رکاوٹیں اور اسی قسم کے دیگر اقدامات کیا ہماری مشکلات نہیں بڑھا رہے؟ کرکٹ ٹیموں کی غیرمعمولی سیکورٹی کا مطلب تو سیدھا سا یہ ہے کہ ابھی شہر کی فضاؤں میں دہشت گردوں کا راج برقرار ہے اور خالص امن اب تک خواب ہی ہے۔

ایک اور بات جو شاید آپ بھی محسوس کریں کہ کیا ہم ایک ایسے معاشرے میں جہاں کرپشن، بجلی و پانی کی قلت، تباہ حال سڑکیں، ناجائز تجاوزات، اسٹریٹ کرائم، تعلیم و صحت کی اوسط درجے کی سہولیات سے بھی محروم ہیں، وہاں پی ایس ایل اور ٹی ٹوئنٹی کا شور مچا کر ’’سب اچھا ہے‘‘ کا تاثر دینا عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہیں ہے؟

بالکل ایسا ہی ہے۔ کیا پانی، بجلی اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضرورتیں پوری کئے بغیر اور کرپشن اور رشوت کی وبا کا خاتمہ کئے بغیر ہمیں مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ پی ایس ایل کا میدان سجائیں مگر اس پر فخر اور اسے کارنامہ تو نہ سمجھیں۔ اس پر ستم یہ کہ انتظامیہ کی جانب سے ورکنگ ڈیز میں ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ہے اور عوام کو ٹریفک پلان دے کر یوں مطمئن ہیں جیسے اب روڈ بلاک نہیں ہوں گے اور اس میں عام لوگوں کے علاوہ ایمبولینس یا فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی نہیں پھنسیں گی۔

ٹی ٹوئنٹی کے لئے بیتاب ہوئے جانے والے یہ بھی سن لیں کہ ٹریفک پولیس نے نیشنل اسٹیڈیم اور اس کے اطراف کی سڑکوں کو مخصوص اوقات میں بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے یونیورسٹی روڈ، نیپا، راشد منہاس روڈ کے ذریعے گلشن اور گلستانِ جوہر اور قریبی علاقوں کے رہائشی شدید متاثر ہوں گے۔ اسی طرح شاہراہ فیصل سے آنے والے جب کارساز سے اسٹیدڈیم کی طرف جانا چاہیں گے تو انھیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ روڈ بند ملے گا۔

ادھر جیل روڈ اور مزار قائد کے علاوہ شہر کی اہم تجارتی سڑک ایم اے جناح روڈ بھی بند کی جاسکتی ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس روز وہاں کاروباری سرگرمیاں انجام نہیں دی جاسکیں گی۔ اس طرح بند سڑکوں، رکاوٹوں اور پہرے داروں کے حصار میں اپنے دفاتر کو جانے والے ٹی ٹوئنٹی کا مزہ لوٹنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد دفتر پہنچنے کے بعد واپسی بھی ایک امتحان سے کم نہیں ہو گی جب کہ اسکول یا کالجوں کے طالبعلم بھی اسی قسم کی مشکلات کا سامنا کریں گے۔

اس ملک اور کراچی کے شہری کرکٹ مقابلوں سے بہلنے کو تیار تو ہیں مگر حکمرانوں اور انتظامیہ کو ان باتوں کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ یاد رہے کہ تفریح کے ساتھ عوام کو سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر افسوس اس طرف توجہ کم ہی ہے

To Top