‘امتحان لینے کے دوران اس نے میرے زیر جامہ کو چھوا اور پھر ۔۔۔۔۔۔’ اسلام آباد کے ایک بڑے کالج کی طالبہ کی ایسی شکایت جس نے سب کو ہلا کر دکھ دیا

کسی بھی والدین کے لیۓ ان کی بچیوں کی عزت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ والدین بچیاں جتنی بھی بڑی ہو جائیں ان کے لیۓ تعلیمی ادارے کے انتخاب کے معاملے میں بہت سوچ بچار کر فیصلہ کرتے ہیں ۔ اور ان کی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ اپنی بچیوں کے لیۓ ایسے ماحول کا انتخاب کریں جہاں ان کی بچیاں ذہنی سکون کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں

آج کل ہر جانب رمضان کے ساتھ ساتھ انٹر کے امتحانات اور پریکٹیکل کی گہما گہمی نظر آرہی ہے ایسے دنوں میں اسلام آباد کی ایک طالبہ کی جانب سے پریکٹیکل کے دوران اس کے ساتھ اور اس کی ساتھی اسی طالبات کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعے نے والدین میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے


تفصیلات کے مطابق یہ سارا واقعہ اس وقت منظر عام پر ایا جب پیپر دینے کے بعد ایک صبا علی نامی طالبہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ سے ایک واقعہ تحریر کیا اس طالبہ کے مطابق اس کا تعلق بحریہ کالج اسلام اباد سے تھا اور اس کا بائلوجی کا پریکٹیکل تھا جس کے لیے ممتحن کے طور پر پروفیسر سعادت بشیر آۓ تھے انہوں نے پہلی شفٹ کا پریکٹیکل کرنے سے قبل ہی کالج کی پروفیسر کو کمرے سے نکلنے کا کہا مگر کالج کی پروفیسر نے جب لڑکیوں کو کسی قرد کے ساتھ تنہا چھوڑنے سے انکار کر دیا

تو اس کے بعد انہوں نے اس ٹیچر کو اجازت دے دی وگر پابند کر دیا کہ وہ ایک خاص حصے تک ہی محدود رہیں اس کے بعد اس لڑکی کا کہنا تھا کہ جب وہ پروفیسرسعارت بشیر کے پاس پریکٹیکل کی کاپی لینے کے لیۓ گئی تو سب سے پہلے اس کے کولہے کو پروفیسر نے نازیبا انداز میں چھوا اس کے بعد دوسری بار جب اس نے سلائڈ بنا لی تو پروفیسر نے اس سلائیڈ کو دیکھنے کے بہانے اس کی برا کو پکڑا

اس لڑکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مینڈک کو دکھا کر پروفیسرسعادت بشیر  نے اس سے پوچھا کہ یہ نر ہے یا مادہ اور جب اس نے کہا یہ نر ہے تو پروفیسر نے کہا نہیں یہ تمھاری طرح مادہ ہے اور اس کے اندر بھی اووریز موجود ہیں  ۔

صبا کا کہنا تھا کہ یہ حرکتیں ان کی صرف اس تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ انہوں نے باقی لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا صبا کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے پہلی شفٹ کے خاتمے کے بعد پروفیر سعادت بشیر کی ان حرکتوں سے آگاہ کیا تو ہماری ٹیچر نے ہمیں خاموش رہنے کا مشورہ دیا ان کو ڈر تھا کہ پروفیسر ہمارے نمبر نہ کاٹ لے کیوںکہ پروفیسر یہی دھمکی دے رہا تھا کہ وہ نمبر کاٹ دے گا

لڑکی کی سوشل میڈیا پر آنے والی پوسٹ  وائرل ہو گغی جس کی خبر جب یونی ورسٹی انتظامیہ اور بورڈ والوں نے فوری طور پر انکوائری کمیٹی بنا دی ہے جب کہ میڈیا کے سامنے آکر پروفیسر سعادت بشیر کا کہنا تھا کہ اس پر یہ تمام الزامات ایک فیک آئی ڈی سے لگاۓ گۓ ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے تاہم اس کے بعد بہت ساری اور طالبات بھی سامنے آگئی ہیں

جن کا کہنا تھا کہ پروفیسر سعادت بشیر نے اس قسم کی حرکات ان کے ساتھ بھی کی ہیں اور اس سے قبل بھی 2014 اور 2015 میں بھی پروفیسر کے بارے میں اس قسم کی شکایات آچکی تھی‎

To Top