پاکستان کے شہریوں کے وہ حقوق جو ان کو پولیس گردی سے بچا سکتے ہیں

پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں ۔ اسی سبب اس ملک کے شہریوں کو ان حقوق سے بھی آگاہی حاصل نہیں جو ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں ۔اس بات کا فائدہ اکثر پولیس والے اور دیگر قانون ساز ادارے اٹھاتے رہتے ہیں ۔جن سے قانون کے بارے میں آگاہی حاصل کر کے بچا جا سکتا ہے ۔

کن جرائم میں پولیس حراست میں لے سکتی ہے

پاکستانی قوانین کے تحت کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں جن کی بنا پر پولیس کسی بھی فرد کو بغیر وارنٹ کے بھی اپنی حراست میں لے سکتی ہے ۔ان جرائم میں قتل ،ڈکیتی اور جنسی زیادتی ایسے جرائم ہیں جن کے لیۓ ملزم کو بغیر وارنٹ کے بھی حراست میں لیا جا سکتا ہے ۔اسکے علاوہ دیگر کسی بھی قسم کے جرم کے لیۓ جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل نہ ہوں پولیس کو حراست میں لینے سے قبل وارنٹ دکھانے ہوں گے ۔

ان جرائم میں حراست میں مزاحمت کے خلاف پولیس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی حد تک طاقت کا استعمال کر سکتی ہے ۔

پولیس عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کے گھر یا جگہ کی تلاشی نہیں لے سکتی

پولیس کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہو جاۓ اور اس کے گھر کی خانہ تلاشی لے اس کے لیۓ پولیس کو پہلے عدالت سے رجوع کر کے اس کی خانہ تلاشی کی وجوہات سے آگاہ کرنا ضروری ہے ۔

عورت کو گرفتار کرنے کے لیۓ پولیس افسر کا اسسٹنٹ سب انسپکٹر ہونا ضروری ہے

عورت کو گرفتار کرنے کے لیۓ یہ ضروری ہے کہ پولیس افسر کم ازکم اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے کا حامل ہو ۔اگر کسی سبب یہ افسر موجود نہ ہو تو اس صورت میں یہ لازم ہے کہ گرفتاری کے وقت علاقے کے کچھ ذمہ داران اور عورت کا ایک رشتے دار لازمی ہمراہ ہو ۔

عورت کی تلاشی کوئی مرد پولیس والا نہیں لے سکتا

قانون میں یہ شق بھی موجود ہے کہ لیڈی پولیس کے علاوہ کوئی مرد پولیس والا نہ تو عورت کی تلاشی لے سکتا ہے اور نہ ہی بغیر قانونی نوٹس کے اس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے ۔

حراست میں لیۓ جانے والے شخص کے پاس اپنے وکیل کے چناؤ کا حق موجود ہوتا ہے

حراست میں لیۓ جانے والے شخص کے پاس یہ اختیار موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیۓ اپنی مرضی کے وکیل کا انتخاب کر سکے اور قانون اس بات کا پابند ہے کہ حامل ہذا کو یہ سہولت مہیا کرے ۔اگر ملزم کے پاس وکیل کرنے کے وسائل نہیں تو وہ اس کے لیۓ پاکستان بار کونسل سے مدد لے سکتا ہے

حراست میں لیۓ گۓ شخص کے ساتھ جسمانی تشدد نہیں کیا جا سکتا

حراست میں لیۓ جانے والے شخص سے ثبوت حاصل کرنے کے لیۓ کسی قسم کا بھی جسمانی تشدد خلاف قانون ہے ۔ ایسی کسی حرکت پر قانون حراست میں لیۓ جانے والے شخص کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ تشدد کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔

عورت کو غروب سے طلوع کے دوران تھانے میں نہیں رکھا جا سکتا

پولیس قانونی طور پر اس امر کی پابند ہے کہ وہ عورت سے تمام تفتیش دن کی روشنی میں کرے اور رات ہونے سے قبل یا تو اس کو آزاد کر دے یا پھر اس کو جیل کسٹڈی میں دے دے ۔

[adinserterblock=”15″]

یہ تمام وہ حقوق ہیں جو کسی بھی پاکستانی شہری کو حاصل ہیں اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کے وہ پولیس کے خلاف نہ صرف شکایت کر سکتا ہے بلکہ قانونی کاروائی کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے ۔

To Top