پولیس نے والدین کے اکلوتے نوجوان بیٹے کو کیوں ہلاک کیا وجہ ایسی جس پر کسی کو یقین نہ آۓ

پولیس کا محکمہ اور اس کے فرائض پاکستان کے شہریوں کی حفاظت ہے ۔اس محکمے کی تنخواہیں عوام الناس کے ٹیکسوں کی رقم سے ادا کی جاتی ہے ۔اور ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ عوام کو نہ صرف تحفظ فراہم کریں بلکہ ہر اس عمل کو یقینی بنائیں جس کے ذریعے عوام کی جان و مال کو محفوظ کیا جا سکے ۔

مگر بد قسمتی سے عملی طور پر اس کے برعکس ہو رہا ہے ۔سیاسی دخل اندازی کے سبب پولیس کا محکمہ ایک مزاق بن گیا ہے ۔پولیس ملازمین موجودہ دور کے فرعون کا روپ اختیار کر چکے ہیں ۔وہ عوام کو جوابدہ ہونے کے بجاۓ خود کو صرف اور صرف اپنے سیاسی آ‍قاؤں کا جوابدہ سمجھتے ہیں اور عوام کی حیثیت ان کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے جس کو وہ جب چاہیں اپنے پیروں تلے چھوٹے پولیس مقابلوں کے نام پر مسل سکتے ہیں ۔

اور اس حوالے سے ان کے سیاسی آقا نہ صرف انہیں قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ سب کرنے کا سیاسی جواز بھی مہیا کرتے ہیں ۔ماضی کے سیکڑوں واقعات اس بات کی عملی دلیل ہیں مگر گزشتہ روز کراچی میں ہونے والے واقعے نے پوری قوم کو چراغ پا کر دیا ہے ۔ اس بار پولیس کا شکار ایک ایسا نوجوان انتظار احمد بنا جو کہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا چشم و چراغ تھا ۔

بائیس سالہ انتظار احمد جو کہ نومبر کے مہینے میں ملائشیا سے پاکستان آیا تھا وہ وہیں پر زیر تعلیم تھا ہفتے 13 جنوری کی شب اپنے والدین کو بتا کر کھانا کھانے کے لیۓ گھر سے نکلا مگر پھر اس کے والدین کو اپنے اس لعل کو زندہ حالت میں دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔اس کی گاڑی پر ظالموں نے اٹھارہ گولیاں چلائیں اور اس کو ہلاک کر دیا ۔

ابتدا میں اس کے قتل کا ذمہ دار نامعلوم افراد کو قرار دیا گیا اور اس عمل کو امیر لڑکوں کے باہمی جھگڑے سے تعبیر کیا جاتا رہا مگر آخر کار اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ذمہ داروں نے اس امر کا اقرار کیا کہ اس کے قتل میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے عہدے دار ملوث ہیں جنہوں نے اس نوجوان کو اپنے پرائیویٹ اسلحے سے نشانہ بنایا ۔

اس انکشاف نے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے ۔سرکاری ملازمیں کے پاس پرائیویٹ اسلحہ کا ہونا اور پھر ڈیوٹی اوقات میں اس کا اس طرح استعمال کرنا کہ وہ کسی کی جان لینے کا سبب بن جاۓ کس قانون میں جائز ہے ۔ انتظار احمد کے والدین کی روتی بلکتی تصویریں اور ویڈیو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انتظار کی موت نے صرف ایک انسان کو ہلاک نہیں کیا بلکہ اس نے ان دو بوڑھے والدین کو بھی مار ڈالا ہے جن کا واحد سہارہ ان کا یہی بیٹا تھا ۔

وزیر اعلی سندھ نے اس واقعے کا نوٹس لے کر پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا ہے اطلاعات کے مطابق چار اہلکار گرفتار ہو چکے ہیں مگر دو افراد ابھی بھی مفرور ہیں ۔ پولیس اہلکاروں کی گرفتاری اس محکمے پر لوگوں کا اعتماد قائم نہیں کر سکتی ضرورت اس امر کی ہے کہ ان افراد کو قرار واقعی سزا دی جاۓ جو کہ محافط کے بھیس میں رہزن بنے ہوۓ ہیں ۔

To Top