کراچی کے نوجوان انتظار احمد ،نقیب اللہ کے بعد مقصود کے قاتل پولیس والے یا کوئی اور ۔۔۔۔۔۔۔

گیارہویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں پروگریس نامی ایک ڈرامہ تھا ۔جس میں ایک کردار مسز میلڈن کا بھی تھا ۔یہ عورت جنگ کی شدت سے مخالف تھی ۔اس کا کہنا تھا کہ جنگ درحقیقت نوجوانوں کا ذبح خانہ ہوتا ہے جہاں پر ہم اپنی قوم کے جوانوں کو قربان کرتے ہیں ۔

حالت جنگ کی تعریف کو اگر دیکھا جاۓ تو ہمارا ملک اور اس کے حالات اس وقت حالت جنگ کی تعریف پر پورے نہیں اترتے ہم لوگ حالت جنگ میں نہیں ہیں ۔ہمارے ملک میں ایک کامل جمہوریت نافذ ہے جہاں ہمیں قول و فعل کی آزادی بھی حاصل ہے ۔ایسی مملکت میں ماؤں کی تڑپتی پکاریں ان کے بین جو وہ اپنے نوجوان بیٹوں کے مرنے پر کر رہی ہیں ہمارے لیۓ ایک سوالیہ نشان کی طرح ہیں ۔

ان ساری اموات کا ذمہ دار پولیس کو قرار دیا جا رہا ہے اور اس بات کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاۓ ۔ مگر کیا واقعی ان تمام جوان اموات کی ذمہ دار ہماری پولیس ہی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور وجوہات بھی ہیں ؟

بظاہر دیکھا جاۓ تو لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظار کی موت کا سبب اس کے کسی لڑکی سے تعلقات ہیں جو کہ ایک پولیس والا برداشت نہ کر پایا اور اس نے اس کی بے دردی سے جان لے لی ۔ اس کے بعد نقیب کا معاملہ دیکھتے ہیں تو بظاہر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اس کی جان کے دشمن وہ پیسے بن گۓ جو کہ وہ دکان کی ایڈوانس کی مد میں دینے جا رہا تھا ۔

اس کے بعد باری آتی ہے مقصود کی جس کو مرتے دم تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ اس کے قتل کی وجہ کیا تھی ۔میڈیا ان تمام واقعات کا ذمہ دار پولیس کو قرار دے رہا ہے اور انکوائری کی درخواست کر رہا ہے تاکہ ان نوجوانوں کے قاتلوں کو گرفتار کر کے ان کو سزا دلوائی جا سکے ۔

مگر اس سوچ کو ختم کرنے کی بات کوئی نہیں کر رہا جس کی بنیاد پر ایک کے بعد ایک کر کے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ بزرگوں کی کہاوت ہے کہ فصل ہمیشہ وہی کاٹی جاتی ہے جس کا بیچ بویا جاتا ہے ۔معاشرے کے اس بگاڑ کا ذمہ دار درحقیقت وہی سوچ ہے جس نے انسانی جان کو اتنا ارزاں کر دیا ہے کہ اس کا ختم کرنا کسی کے لیۓ بھی انتہائی آسان ہو گیا ہے ۔

اس وقت ہمیں سب سے پہلے آنے والی نسل کی ایسی تربیت کی ضرورت ہے جو کہ انسان اور انسانیت کا احترام کرنے والی ہو ۔اور اس کا واحد ذریعہ حقیقی تعلیم ہے جس کے ذریعے ہم لوگوں کو محبت اور برداشت کی تعلیم دیں ۔

زر ،زن اور زمین کے نام پر قتل اس دنیا کا صدیوں سے وطیرہ رہا ہے مگر جیسے جیسے انسان نے تہزیب کا دامن تھاما ایسے قتل پر روک لگائی گئی اب ایک دفعہ پھر ہم لوگ غاروں کے دور کا طرز معاشرت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

ایک راؤ انوارکو نوکری سے ہٹا دینا اس مسلے کا حل نہیں ہے ۔پولیس کی مطلق العنانی کو روک لگانے کے لیۓ لازمی ہے کہ ہم پولیس سے صرف وہی کام لیں جو ان کی ذمہ داری ہے مگر سیاست دانوں نے پولیس کو اپنے ناجائز دھندوں کا شریک بنا کر اس قوم کے ساتھ وہ زیادتی کی ہے جس کا ہرجانہ یہ قوم اپنے نوجوانوں کی لاشیں اٹھا کر بھگت رہی ہے ۔

صرف لاشیں کندھوں پر اٹھا کر احتجاج کرنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے مسائل کو حل کرنے کے لیۓ ان کی جڑ تک جانا ضروری ہے ۔پولیس کے محکمے کو آزاد کرنا اور ہر قسم کے سیاسی عمل دخل سے آزاد کرنا اس معاملے کی پہلی سیڑھی ہونی چاہیۓ ہے ۔

 

 

To Top