پاکستان میں موت کی سزا پانے والوں کو پھانسی کیوں دی جاتی ہے ؟

دنیا میں جب سے انسان نے تہذیب و تمدن کی راہ اختیار کی۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کے اندر رہنے کے کچھ قوانین اخذ کیۓ گۓ۔ ان قوانین کا مقصد معاشرے کی بقا اور اس کی ترقی کے لۓ لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی ان کے توڑنے والوں کے لۓ سزا بھی مقرر کی گئی۔ تاکہ ان قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جاسکے۔

انسان جس ماحول میں اور جس مملکت میں رہتا ہے اس کے قوانین کو ماننا اس پر واجب ہوتا ہے۔ اس کی نافرمانی کی صورت میں اس ملک کے آئین کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق کسی فرد کی جان لینے کے بدلے میں سزاۓ موت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی اور توہین مذہب کے جرم ، اور جاسوسی کی سزا بھی سزاۓ موت ہی ہوتی ہے۔

سزاۓ موت کے لۓ ویسے تو دنیا بھر میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ جیسے زہر کا انجکشن لگانا، یا سر قلم کر دینا اور پھانسی کا طریقہ ، ان تمام طریقوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مرنے والے کو کم سے کم تکلیف ہو۔ اور اس کی فوری طور پر موت واقع ہو جاۓ۔

پاکستان میں پھانسی کی سزا کے لۓ رسی ایک خاص قسم کے سوت کے دھاگے سے تیار کی جاتی ہے۔ان دھاگوں میں کوئی گانٹھ نہیں ہوتی، اس رسی کو تیار کرنے کے لئے سپننگ مشین سے ایک طرف 16 اور دوسری طرف دھاگے کے 6 لچھے لئے جاتے ہیں۔

اس رسی کو اتنا مضبوط بنایا جاتا ہے کہ وہ انسانی جسم کے وزن سے کئی گنا زیادہ وزن اٹھانے کی استعداد رکھتی ہے۔اس کے بعد اس کو موم یا ایک خاص قسم کے صابن کی مدد سے نرم بنایا جاتا ہے۔ تاکہ اس کی گانٹھ ہموار طریقے سے بغیر رکاوٹ کے وزن ڈلتے ہی کھنچ جاۓ۔

پھانسی سے قبل قیدی کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ یا پھر اس کے پورے چہرے پر کپڑا چڑھا لیا جاتا ہے ۔ پھانسی سے قبل قیدی کی اس کے عزیزو اقارب سے ایک دن قبل ملاقات کروادی جاتی ہے۔ اور آخری لمحوں میں اس کو وصیت کرنے کا بھی اختیار دیا جاتا ہے۔

پھانسی کے تختے پر چڑھانے کے بعد ، چہرے کو ڈھک دیا جاتا ہے اور گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ پھندے کی گانٹھ قیدی کے کان کے بائیں کنارے کی طرف ہو ۔ اس دوران قیدی کے ہاتھ پاؤں باندھ دیۓ جاتے ہیں۔

پیروں کے نیچے سے تختہ کھینچتے ہی قیدی رسی پر لٹک جاتا ہے۔ جس سے اس کا سارا وزن اس کی گردن پر آجاتا ہے۔ اور گردن کی ہڈی فوری طور پر ٹوٹ جاتی ہے۔ جس سے اس کے دماغ کا رابطہ اس کے جسم سے ختم ہو جاتا ہے۔ اور وہ جان نکلنے کی تکلیف محسوس کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔

لٹکانے کا یہ عمل دو سے پانچ منٹ تک کا ہوتا ہے۔ مگر بعض صورتوں میں ہاتھوں کے نیلے ہونے تک اس عمل کو جاری رکھا جاتا ہے۔ پھانسی کے لۓ عموما دن کے اولین حصے کا انتخاب اس لۓ کیا جاتا ہے کہ اس وقت میں انسانی اعضا سکون کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اس لۓ جان نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔

مگر اب پاکستانی قوانین میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ پھانسی کے بعد وہاں موجود ڈاکٹر مرنے والے کا معائنہ کرتا ہے۔ اور اس کی موت کی تصدیق کے بعد لاش کو لواحقین کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔

To Top