پڑھیئے کسطرح جہیز اور چوچک جیسی رسومات نے ایک اور باپ کی جان لے لی!

آچ پھر اس کے گھر میں مہمانوں کا یلغار تھا۔ سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے خوش تو وہ بھی تھا اس کی پہلی بیٹی کی شادی جو تھی ۔ وہ ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان کا مالک تھا گزر بسر عزت سے ہو رہی تھی ۔ اس کی چھ بیٹیاں تھیں اور صرف ایک بیٹا، اسی بیٹے کی خواہش میں بار بار اللہ سے امید لگانے کے چکر میں اللہ اسے بیٹیوں سے نوازتا گیا اور وہ کبھی خوشی اور کبھی شکوہ کے ساتھ ان کو قبول کرتا گیا۔

ہر بیٹی کی پیدائش پر اس کے کاندھے مزید جھک جاتے اور ان کے جہیز کی تیاری کے بار تلے وہ اپنی خواہشوں اور ضرورتوں کا گلا مزید گھونٹتا گیا ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا بچایا ہوا ایک ایک پیسہ بیٹیوں کے جہیز کے سامان کی تیاری میں کام آۓ گا۔

05

Source: Flickr

البتہ اس نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم اگرچہ بہت بڑے تعلیمی ادارے میں نہیں کروائی تھی مگر اپنی طاقت کے مطابق کچھ نہ کچھ بندوبست ضرور کیا جس کے سبب اس کی یہ بیٹی بھی انٹر پاس تھی اور اب اس کا رشتہ قریبی عزیزوں میں کر کے وہ مطمئن تھا کہ وہ کم ازکم اپنے ہیں تو جہیز کے لئے رنگ برنگے مطالبے نہ کریں گے۔

پھر بھی اس نے اپنی طاقت سے بڑھ کر ہی دیا تھا ۔ اس کے لئے اس نے تھوڑا بہت قرض بھی لے لیا تھا اس امید کے ساتھ کے ایک دو سالوں میں وہ اس کو ادا کر دے گا اور اس کے بعد اگلی بیٹی کے جہیز کا سامان جمع کرنا شروع کر دے گا ۔

04

Source: Youth Times

بیٹی کی رخصتی کے بعد وہ دن رات اس کے جہیز کے لۓ لیےگۓ قرض کی ادائیگی کے لۓ دن رات ایک کرنے لگا۔ انہی دنوں اسے خوشخبری ملی کہ اس کی ننھی سی گڑیا ماں بننے والی ہے جس پر اسے خوشی بھی ہوئی مگر ایک عجیب مطالبہ اس کی بیوی کی جانب سے سامنے آیا وہ تھا چوچک کی تیاری کا، پہلے تو اس کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ  چوچک آخر کیا ہے مگر پھر اس کی بیوی نے بتایا کہ پیدا ہونے والے بچے کے ننھیال کی جانب سے دیۓ جانے والے جہیز کو چوچک کہا جاتا ہے ۔

شروع میں تو وہ سمجھا کہ چھوٹے بچے کو دیئے جانے والے چند تحائف ہوں گے مگر ہر کچھ دن بعد ہونے والے مطالبات نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیئے ، مطالبات بھی براہ راست نہ کۓ جاتے بلکہ ہر چکر میں اس کی بیٹی آکر بتاتی کہ اس کی ساس نے کہا تھا کہ ہم نے تو اپنی بیٹی کو اس موقع پر یہ یہ دیا تھا اب دیکھتے ہیں ہمیں کیا ملتا ہے لہذا اس کو وہ سب بھی شامل کرنا پڑتا۔

06

Source: My Kid Site

پرانے قرض کی ادائیگی تو اب خیال ہوتی جارہی تھی الٹا نئے قرضے اس کے گلے کا ہار بنتے جا رہے تھے اور اگر وہ انکار کرتا تو اس کا اثر اس کی بیٹی کی زندگی پر پڑتا جو وہ نہیں چاہتا تھا ۔ بچے کے سامان کے ساتھ ساتھ سب سسرال والوں کے جوڑے اور ان کو دیئے جانے والے تحائف کی ایک لمبی فہرست نے اس کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کاش وہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتا تو آج کم از کم خود تو زندہ ہوتا ۔

بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں ، بوجھ تو وہ رسم و رواج ہوتے ہیں جن کو ہم نے اپنے گلے کا ہار بنایا ہوا ہے ۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم و تربیت دیتا ہے یہی اس کا جہیز ہوتا ہے اس کو رسوم و رواجوں کے ذریعے ساری عمر زیر بار کرنا زیادتی ہے ۔ اس پر آواز اٹھانا ہم سب کی معاشرتی ذمہ داری ہے

انقلاب کتاب کی وجہ سے نہیں ہمیشہ صاحب کتاب کی وجہ سے آیا ہے

To Top