قرآن مسلمان عورتوں کو مردوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حق دیتا ہے پہلی مسلمان قاضی عورت نے فتوی جاری کر کے سب میں کھلبلی مچا دی

اسلام دین فطرت ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کے حقوق و فرائض واضح طور پر بیان کیۓ گۓ ہیں مگر بدقسمتی سے بر صغیر پاک و ہند کی عورتین تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں لہذا وہ مزہبی طور پر صرف انہی فرائض سے آگاہ ہوتی ہیں جو کہ مرد علما ان کو بتاتے ہیں اور ان کو اس بات کا کوئی شعور نہیں ہوتا کہ اسلام نے ان کو کن کن حقوق سے نوازا ہے ۔


ایسا ہی کچھ ہندوستان کے علاقے جے پور کی رہنے والی جہاں آرا کے ساتھ بھی ہوا جس کا شوہر اس کو ہر رات بری طرح مارتا تھا ۔شادی کے دس سالوں میں اس کی کوئی رات ایسی نہ تھی جب اس کے شوہر نے اس پر تشدد نہ کیا ہو مگر خاندانی دباؤ اور اچھی بیوی کہلانے کی خواہش میں وہ ہر رات اس تشدد کو برداشت کرنے پر مجبور تھی ۔

اس دوران اللہ نے اس کو چار اولادوں سے بھی نواز دیا ایک دن شوہر کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اس نے اس سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور اپنے بچوں کے ساتھ اس شوہر کا گھر چھوڑ دیا ۔ گھر چھوڑنے کے بعد اس نے اسی علاقے کے ایک جیدعالم سے رجوع کیا جو اس کو باقاعدہ طلاق دلوا سکے اور اس کے مہر میں لکھا ہوا پندرہ گرام سونا اس کو دلوا سکے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے آنے والی زندگی کا کچھ سامان کر سکے ۔

اس کے ساتھ ساتھ اس نے اس گھر میں سے اپنے سامان کا بھی مطالبہ کیا مگر اس عالم نے اس کو مشورہ دیا کہ یا تو وہ اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جاۓ یا پھر اس سامان پر سے اپنا دعوی واپس لے لے اسی صورت میں اس کو طلاق مل سکتی ہے ۔اس وقت طلاق لینے کے لیۓ اس نے اپنے سارے حق چھوڑ دیۓ اس کے شوہر نے اس کو ان بچوں کے نان نفقہ کی مد میں بھی کوئی ادائگی نہیں کی ۔

اس کے بعد چالیس سالہ جہاں آرا نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا اس کے ذہن میں بہت سارے سوالات تھے کہ اللہ تعالی عورتوں کے ساتھ اتنا ظلم کیسے کر سکتے ہیں ۔ عورتوں کے لیۓ اسلام میں اتنے سخت قوانین کیوں ہیں ۔ان سوالات کا جواب تلاشنے کے لیۓ اس نے دارالعلوم نسواں میں دو سالہ کورس میں داخلہ لے لیا ۔

جہاں پر دو سالوں میں اس نے اسلامی قوانین ،قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اس کے بعد بطور پہلی خاتون قاضي کے اپنا کام شروع کیا ۔جہاں آرا کا یہ کہنا ہے کہ اسلام میں عورت کو بہت سارے حقوق سے نوازا گیا ہے جن کے بارے میں مرد علما عورتوں کو آگاہ نہیں کرتے ۔ اسلام تو عورت کو برابری کے حقوق دیتا ہے یہ مرد ہے جو عورت کو اپنی برابری کا حق دینے کو تیار نہیں ہے ۔

ان کا مذید یہ بھی کہنا تھا کہ شادی مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جس میں دونوں فریقین کو برابری کے حقوق حاصل ہیں ۔ اس حوالے سے کسی ایک فریق کو دوسرے فریق پر برتری حاصل نہیں ہے ۔اگر مرد عورت پر زيادتی کر رہا ہے تو یہ بات قطعی جائز نہیں کہ عورت کو زبردستی اس مرد کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جاۓ ۔

جہاں آرا نے دینی تعلیم حاصل کر کے عورتوں کے لیۓ ایک دروازہ کھول دیا ہے جس کے ذریعے تمام عورتیں نہ صرف اپنے حقوق سے آگاہی حاصل کر سکتی ہیں بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے حقوق کے لیۓ آواز بھی اٹھا سکتی ہیں ۔

 

To Top