مضمون “میں ایک میاں ہوں” – پطرس بخاری (حصہ دوم)

باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا، پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔

آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔

جمائی پہ جمائی۔ حتیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔

اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیں لیکن اس سے بھی تھک گیا۔

پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔

بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ “ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا، مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔”

وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا۔ اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے، رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے، تکئے پر سر رکھا ہی تھا، کہ نیند نے بےہوش کردیا۔ صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی ۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔

گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا “حضور حجام آیا ہے۔”

ہم نے کہا۔ “یہیں بلا لاؤ”۔ یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں، اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے، چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال۔ دل میں آیا ۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا۔ اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔

آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا ، اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ میں بہت اداس ہوں تم فوراً آجاؤ!

تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا، یقین تھا کہ روشن آرا اب جس قدر جلد ہوسکے گا، آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔

دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں ۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی، سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔

اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے ، قواعدوضوابط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی، یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوگیا، ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جاتا ہے۔ وہ چور۔ سب نے کہا “واہ وا کیا بات کہی ہے”۔ ایک بولا۔ “پھر آج جو چور بنا، اس کی شامت آجائے گی”۔ دوسرے نے کہا۔ “اور نہیں تو کیا بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں سلطنتوں کے!”

کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، “ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے”۔ کوئی کہے، “نہیں حضور، سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔” دوسرے نے کہا “نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔” آخر میں بادشاہ سلامت بولے۔ “ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اوراس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اس حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے۔” سب نے کہا۔ “کیا دماغ پایا ہے حضور نے ! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ وا!”

ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا “تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔” نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی، ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

صحن میں پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی ۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا!

دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔زبان بند ہوگئی، سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ” تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں ” اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔

روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔

اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے، کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں ۔ جہاں تک میں میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی ۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا حجام کے۔ اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔

“خط ہے؟”

“جی ہاں”

“دے جاؤ، چلے جاؤ۔”

“ناخن تراش دو۔”

“بھاگ جاؤ۔”

بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا ۔ آپ دیکھئے تو سہیٴ!

To Top