پاکستانی معاشرے کے اندر رشتے داروں کی بہتیری قسمیں ہوتی ہیں جن میں سے کچھ وکھرے،کچھ اوکھے اور کچھ چپکو قسم کے ہوتے ہیں ۔
سب سے پہلے وکھرے والے ہوتے ہیں جن کی ہر بات الگ ہوتی ہے۔ وہ جو پہنیں فیشن اور ہم جو پہنیں وہ لنڈے بازار سے آیا ہوا ۔ان کا ببلو ذہین اور ہم نے جو اے ون گریڈ لیا نقل کر کے لیا۔ ایسے رشتےداروں سے بچنے کا طریقہ آج تک دریافت نہیں ہو سکا۔ ایسے رشتہ دار ابو کے بہت قریب اور امی سے بہت دور ہوتے ہیں ۔یہی سبب ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد گھر میں گھمسان کا رن پڑتا ہےکیونکہ ان کے جانے کے بعد ابو کو بیٹے ناکارہ،بیٹیاں پھوہڑ اور بیوی پرانی نظر آنے لگتی ہے جس نے بچوں کی تربیت اچھی نہیں کی ہوتی.
دوسری قسم اوکھےرشتےداروں کی ہوتی ہے۔ ان کے گھر جانا یا ان کا ہمارے گھر آنا دونوں ہی مشکل ہوتے ہیں آئیں تو بندہ صفائیاں کر کر کے مر جاۓ پھربھی پتہ نہیں ان کے آتے ہی ایک کاکروچ نہ جانے کہاں سے ناچتا گاتا آجاتا ہے۔
اب تو مجھے یقین ہونے لگا ہے کہ یہ اوکھے لوگ خود ہی کاکروچ کو ساتھ لے کے آتے ہیں اور جب ان کےگھر جاؤ تو کھانے میں لوکی کریلے رکھیں گے یہ کہہ کر کہ چکن میں سوائن فلو آیا ہوا ہے اور آج کل مٹن کے معاملے میں شک ہوتا ہے کہ کہیں کتا تو نہیں کاٹ کر کھلا رہے لہذا بہتر ہے لوکی کھاؤ۔ دل چاہتا ہے بندہ ان کے گھر کھانا کھانے کے بجاۓ سیلانی کے دسترخوان چلا جاۓ جہاں اس سے بہتر کھانا ملتا ہے۔
اس کے بعد باری آتی ہے چپکو رشتےداروں کی یہ وہ ہیں جو آجائیں تو جاتے نہیں کچھ لے لیں تو واپس نہیں کرتے، ہماری ایک پھپھو اس کی عملی مثال ہیں۔ اکثر جمعے کی شام ہی امی تمام نئی چیزوں کو سنبھالنے کا حکم جاری کر دیتی ہیں کیونکہ تب ہی وہ اپنی آدھا درجن فوج کے ساتھ ہمارے گھر آتی ہیں اورواپسی اتوار کی رات ہوتی ہے۔
مجھے نہیں یاد کہ کبھی کوئی چھٹی ہم نے ان کے بغیر گزاری ہو۔ میری ہر نئی پینٹ کو مجھ سے ذیادہ ان کے بیٹوں نے پہنا ا ور اگر کبھی منع کر دو تو اتنی بری نظر لگا کے جاتی ہیں کہ وہ پینٹ بیچ چوراہے پر ایسے پھٹتی ہے کہ اپنی عزت کے جنازےکو کاندھا دینا مشکل ہو جاۓ۔
فیصلہ آپ خود کریں کہ آپ کیسے رشتے دار ہیں؟
متھیرا نے جوش کے اشتہار میں کام کرنے کی ایسی پرجوش وجہ بتا ڈالی جس کو جان کر سب ہی دنگ رہ گۓ