کیا پاکستان میں لڑکیوں کے رشتے کی ایک بڑی رکاوٹ پاکستانی ڈرامے ہیں؟

پاکستانی ڈرامے عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں ،ان کے ساتھ کی جانے والی بے وفائیوں اور ان کے اوپر ہونے والے ظلم و جبر سے بھرے پڑے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاۓ کہ پاکستانی ڈراموں کے اندر مظلوم عورت کا کردار ہی درحقیقت بکتا ہے ۔جتنا زیادہ ظلم دکھایا جاتا ہے اتنا ہی ڈرامہ ہٹ ہوتا ہے ۔

مگر گزشتہ سہہ ماہی میں پاکستانی ڈراموں کی کہانیوں نے ایک نئی کروٹ لی ہے ۔اب ان ڈراموں میں اچھے مردوں کے کردار کو سامنے لایا جارہا ہے جو عورت کی نسوانیت کی حفاظت کرنے والا دکھایا گیا ہے ۔ جو کہ نہ صرف عورتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ ان کی کوتاہیوں کو بڑے دل سے معاف کرتے ہوۓ اور اس کو اپناتے ہوۓ دکھایا گیا ہے ۔

 ڈرامہ تیری رضا کا امتیاز

ڈرامہ تیری رضا میں امتیاز کا کردار سرمد کھوسٹ نے انتہائی عمدگی سے نبھایا ۔یہ کردار ایک سمجھدار ، کامیاب اور بڑی عمر کے ایک ایسے مرد کا کردار تھا جو کہ ایک کم عمر لڑکی سےاپنی پسندیدگی کے باعث شادی کرتا ہے ۔ اور اس کے بعد اس محبت کو اس وفاداری سے نبھاتا ہے کہ کم عمر سہانا کی ہر غلطی کو اس کی خوشی کے لیۓ درگزر کرتا جاتا ہے ۔

پاکستانی معاشرے میں عموما مرد کی عمر شادی کے وقت عورت سے زیادہ ہی ہوتی ہے ۔اس ڈرامے کو دیکھ کر ہر لڑکی امتیاز جیسے شوہر کا تصور کر سکتی ہے ۔ جو نہ صرف کامیاب ہو بلکہ امتیاز ہی کی طرح بڑے دل کا اور عزت کرنے والا ہو ۔

ڈرامہ باغی کا شہریار

سپر ہٹ ڈرامہ باغی میں شہریار کے کردار میں عثمان خالد دیکھنے والوں کے لیۓ ہمیشہ سے زیادہ متاثر کن رہے ۔ ان کے کردار کی نرمی ان کی شخصیت کا خاصہ لگی ۔شہریار کا کردار ایک ایسے کامیاب بزنس مین کا کردار تھا جو عورت کو برتنے کی چیز سمجھنے کے بجاۓ اس کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوۓ اس سے محبت کرنے والے تھے ۔

شہریار کا کردار درحقیقت ایک ایسے مرد کا کردار تھا جو ہمارے معاشرے میں مفقود ہے ۔جو عورت کی غلطیوں پر اس کو سزا دینے کے بجاۓ اپنی محبت سے ان غلطیوں کو سدھارنے پر یقین رکھتا ہے ۔بدقسمتی سے اس ڈرامے کے اینڈ میں کچھ اور نام نہاد غیرت مند مردوں کے سبب وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکا مگر پاکستانی لڑکیوں کا آئیڈیل ضرور بن گیا جو کہ عورت کو حقیقی معنوں میں عزت دینے والا ہو ۔

ڈرامہ او رنگریزہ کا قاسم

بچپن کی محبت کو جوانی تک نبھانے کا قاعدہ اس سے قبل صرف لڑکیوں کو ہی نبھاتے ہوۓ دکھایا گیا تھا مگر ڈرامہ او رنگریزہ میں جس طرح قاسم نے اپنی محبت سسی سے نبھائی وہ ایک مثال ہے ۔قاسم کا کردار بلال عباس خان نے انجام دیا ۔اپنی خوبصورتی اور وجاہت کے سبب وہ پہلے ہی بہت سی لڑکیوں کے خوابوں کا حصہ ہیں مگر اس ڈرامے میں جس طرح کے مرد کا کردار انہوں نے نبھایا وہ ایک مثال ہے ۔

ہمارے معاشرے میں متوسط طبقے کے مرد جن کے سامنے لڑکیوں کی صورت میں بہت سارے آپشن ہوتے ہیں اس طرح محبتوں کے معاملے میں کھلے دل کا مظاہرہ کرتے نظر نہیں آتے ۔ اس کے بعد قاسم کا اپنے لوگوں کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ حویلی کو نیلامی سے بچانے کے لیۓ اپنی محبت کا گلا گھونٹ کر مینا سے شادی کرنا اور اپنی اس بیوی سے جس سے شادی صرف سمجھوتے کے لیۓ کی تھی وفاداری کا مظاہرہ کرنا اس کا رتبہ ہر لڑکی کے دل میں بہت بڑھا دیتا ہے ۔


ہر لڑکی اپنے جیون ساتھی کے روپ میں ایسے ہی ہمسفر کی خواہشمند ہو جاتی ہے ۔پاکستانی ڈراموں کی یہ بدلتی روش اگرچہ ایک مثبت عمل ہے مگر اس کے سبب لڑکیوں کی خواہشات کا بڑھ جانا ایک نازک معاملہ ہے ۔ ان ڈراموں سے ہمارے معاشرے کے مردوں کو بھی یہ سبق حاصل کرنا چاہیۓ کہ مردانگی صرف غصہ کرنے کا نام نہیں بلکہ عورت کی نسوانیت کو تسلیم کرنا اور اس کو عزت دینا بھی مردانگی ہے ۔

To Top