در و دیوار اپنے تھے، سبھی گھر بار اپنے تھے
نہیں سوچا تھا ہجرت کا، خوشی، آزار اپنے تھے
کبھی کھویا نہ تھا بچہ، کوئی ماں سے اگر بچھڑا
گلی کیا تھی وہ کنبہ تھا، محلے دار اپنے تھے
ملکی و عالمی سیاست، حالاتِ حاضرہ پر تبصروں اور تجزیوں کے علاوہ معاشرے میں جنم لیتے بھیانک اور لرزہ خیز واقعات روز ہی بریکنگ نیوز کی صورت ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہمارے میڈیا کے پاس دکھانے اور سنانے کو کچھ رہا ہی نہیں ہے۔
مایوسی، افراتفری اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے والی خبروں اور خوف اور دہشت پھیلانے والے واقعات کی تکرار نے ہمیں یقیناً ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔ ایسے میں ٹیلی ویژن کے ناظرین انٹرٹینمنٹ پروگراموں کی وجہ سے ناظرین کو تفریح کے مواقع تو میسر ہیں، لیکن بدقسمتی سے انٹرٹینمنٹ میڈیا بھی غیروں کی نقالی اور جگالی میں مصروف ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ ٹی وی ڈرامے مثبت اور معیاری تفریح کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ مقصد اور تعمیری سوچ سے عاری نظر آتے ہیں تو کیا غلط ہو گا۔ کیونکہ اس کا اظہار اور اعتراف خود نامور فنکار اور رائٹرز کرتے ہیں۔ اب انٹرٹینمنٹ کی دنیا پر کمرشلزم حاوی ہے۔
وہ ناظرین، خصوصاً گھروں میں رہنے والی خواتین جو بریکنگ نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں سے اکتا کر جب انٹرٹینمنٹ چینلز کی طرف متوجہ ہوتی ہیں تو انہیں خاصی مایوسی ہوتی ہے۔ وہی روایتی ڈرامے جن میں گھریلو جھگڑوں، سازشوں اور محبت کو موضوع بنایا گیا ہو انہیں بیزار کردیتے ہیں۔
اگرچہ چند نامورانٹرٹینمنٹ چینلز نے اس فضاء کو بدلنے میں کردار ادا کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسی کہانیاں شاذ و نادر ہی سامنے آتی ہیں جو ہماری ثقافت، سماج اور روایات کی حقیقی ترجمانی کے ساتھ ہم میں پاکستانی ہونے اور اپنے وطن اور اس کے باسیوں کے ساتھ اخلاص و محبت کا جذبہ پیدا کریں۔
اس حوالے سے مزید اور بہتر کام کرنے کی ضرورت اب بھی ہے بلکہ موجودہ حالات میں شاید یہ زیادہ ضروری ہے کہ ہم بامقصد اور ملّی تشخص کو اجاگر کرنے والے پروگرامز اور ڈرامے تیار کریں۔ اس حوالے سے منفرد اور سب سے مختلف قدم کون اٹھائے گا؟ یہاں تو آئے روز ایک نیا تفریحی چینل آ رہا ہے، لیکن سب کا مقصد کمرشلز کے ذریعے لاکھوں روپے سمیٹنا ہے۔ چاہے اس کے لیے غیروں کی نقالی اور اپنوں کی توہین بھی کرنا پڑے۔
اس صورتِ حال میں بول انٹرٹینمنٹ کی آمد کا بھی چرچا ہو رہا ہے جو جلد نشریات کا آغاز کر دے گا۔ اس کا دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ اس روش پر نہیں چلے گا جس میں ناظرین سے زیادہ کمرشلز کی اہمیت ہوتی ہے اور ایسے ڈرامے پیش کئے جائیں گے جو نہ صرف سماجی تبدیلی اور مثبت تفریح کا ذریعہ ہوں گے بلکہ ان میں پاکستانیت کا رنگ نمایاں ہو گا۔ تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا خیال رکھا جائے گا۔ تاہم یہ تو وقت ہی بتائے گاکہ یہ چینل کس حد تک اپنے دعوے میں سچا ہے۔
اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کمرشلز اور چٹ پٹی کہانیاں پیش کرنے کے لیے چینل انتظامیہ کا تمام ٹیم پر بڑا دباؤ ہوتا ہے اور پروڈکشن ہاؤسز کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مالی فوائد کو مدنظر رکھیں، لیکن ڈراما لکھنے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی بات سلیقے سے لوگوں تک پہنچائیں اور تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھیں۔
ماضی میں بننے والے ڈراموں میں پاکستان کے تمام صوبوں اور ہر علاقے کا کلچر دکھایا جاتا تھا اور ہماری تہذیب و ثقافت کی ترجمانی ہوتی تھی۔ حسینہ معین، اشفاق حسین، بانو قدسیہ، بجیا جیسے لکھاریوں کے علاوہ کئی بڑے ادیبوں اور اس شعبے سے وابستہ ہدایتکاروں نے ہمیں بہترین اور بامقصد تفریح سے آشنا کیا۔ اب جہاں ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہے وہیں لکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے اور نئے ڈراما نگار موجودہ عہد کی اچھی ترجمانی کررہے ہیں تاہم کمرشلزم اس پر حاوی ہوتا جارہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ زمانہ آگے بڑھ گیا ہے اور نئی نسل کی سوچ بدل گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمیں اپنی اقدار اور روایات کی پاسداری بھی کرنا ہو گی جس کے لیے نئے چینلز سے امید ہی کی جاسکتی ہے