کیا واقعی ہم خوشیوں کو ترسی ہوئی قوم ہیں؟

کسی نے نہ سوچا تھا کے پاکستان ٹیم  چیمپئن ٹرافی جیت کے لا سکے گے۔ بے یقینی کا یہ عالم تھا کے 338 کا سکور کرنے کے باوجود احباب یہ کہتے نظر آتے تھےکے انڈیا کے خلاف یہ سکور بھی کم ہے۔ پاکستان بولنگ کے لئے میدان میں اترا ، عامر نے اوپر تلے 3بھارتی بیٹسمین ٹھکآنے لگاۓ اور باقی سب تاریخ کا حصّہ بن گیا ۔

آخری بھارتی کھلاڑی کے آؤٹ ہوتے ہی لندن سے پاکستان تک جشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شرو ع ہوا جو رات گہری ہونے تک جاری رہا ۔ آتش بازی، مٹھایاں، بھنگڑے تھے تو کہیں شکرا نے کے نوافل ،یار لوگوں نے فیس بک پر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا ،ہر چہرہ خوشی سے سر شار تھا۔

کپتان سرفراز ٹرافی اٹھاۓ کراچی ائیرپورٹ سے باہر آ ے تو کراچی میں سحر ی کا وقت تھا مگر ہزاروں لوگ استقبال کے لئے موجود تھے ، کپتان اپنے گھر پہنچے تو لگا پورا کراچی امڈ آیا ہو ۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے تھے ، موقع موقع کے گانے پر خوب موج مستی ہوئی ۔

میں نے پیر صاحب ال معروف گھوڑے والی سرکار   سے پوچھا  کہ اگر آسٹریلیا جیتا ہوتا تو کیا وہاں بھی یہ سب ہوتا ، مسکرائے، کہنے لگے میاں یہ خوشیوں کی ترسی ہوئی قوم ہے۔ دہشت گردی ، مہنگائی ،بیروزگاری اور پریشانی ہے۔

جو نہیں ہے وہ  بجلی پانی اور گیس ہے، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے ایک عرصے سے بند ہیں ۔ ایک ایسی نسل جوان ہو رہی ہے کہ جس نے  بین اقوالامی مقابلے کبھی اسٹیڈیم جا کے نہیں دیکھے۔ ایسے حالات میں خوشیوں سے محروم قومیں ایسے ہی دیوانہ وار جشن منا تی ہیں ۔

ُسُن کے عجیب لگا اور دل سے آواز نکلی کے خدارا اس قوم کو اتنی خوشیاں دے کے ہر روز روزِ  عید ہو اور ہر رات شبِ برات ۔ پیر صاحب سے جواب تو مل گیا مگر ایک الجھن سی  رہ گئی کہ کیا واقعی ہم خوشیوں کو ترسی ہوئی قوم ہیں؟

حق مہر میں 100 کتابیں! دلہن کے انوکھے مطالبے نےسب کو حیران کر دیا

To Top