پاکستانی نوجوان نے آسٹریلوی لڑکی کو جھوٹےخواب دکھا کرعزت لوٹ لی

پاکستانی نوجوان اور لارا

جس طرح مشرقی لوگون کے لیۓ گورا رنگ ایک خاص اہمیت کا حمال ہوتا ہے اسی طرح مفربی حسیناؤن کے لیۓ بھی ایشا کے مردوں میں وفاداری اور ان کی سانولی رنگت میں خوبصورتی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل مغربی دوشیزائیں سوشل میڈیا کے ذریعے  پاکستانی مردوں کی محبت میں گرفتار ہو کر ان سے شادی کرنے کے لیۓ پاکستان کچی ڈور سے بندھی چلی آرہی ہیں ایسی ہی ایک آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی لارا ہال بھی تھیں

تیس سالہ لارا کی دوستی پاکستانی نوجوان سجاد نامی شخص کے ساتھ ہوئی تھی جس نے ان کو اپنی محبت کے خواب دکھا کر اپنی باتوں کے جال میں پھانس لیا ۔ لارا کا یہ کہنا تھا کہ سجاد نے اس کو اطالوی طرز کے بنے ہوۓ ایک محل کی تصویر بھییجی اور بتایا کہ اس نے یہ محل صرف اور صرف لارا کے لیۓ خریدا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ محل لارا اپنی مرضي سے سجاۓ

لارا جو کہ پیشے کے اعتبار سے وکیل  ہے اس نے ڈیلی میل کے نمائندے کو اپنی کہانی سناتے ہوۓ کہا کہ 2013 میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ایک دن ایک پاکستانی لڑکی ریحانہ سے ملی جس نے مجھ سے دوستی کر لی اس لڑکی نے لارا سے انگلش سکھانے کی درخواست کی جس کے بعد لارا کا ریحانہ کے گھر آنا جانا ہو گيا

لارا

ایک دن ریحانہ جب اپنےگھر والوں سے اسکائپ پر بات کر رہی تھی تو اس کا پہلی بان سجاد سے تعارف ہوا جو کہ ریحانہ کا رشتے دار تھا اس نے بتایا کہ وہ بھی پیشے کے اعتبار سےوکیل ہے اور اس طرح اس کا تعلق سجاد سے قائم ہو گیا جو کہ تقریبا پانچ سال تک جاری رہا 2018 مین سجاد نے لارا کو اپنے بھائی کی شادی پر بلایا

پاکستانی نوجوان کے جھوٹے کے خواب

پاکستان آکر لارا کو اندازہ ہوا کہ پاکستانی نوجوان سجاد جس زندگی کے خواب اس کو دکھا رہا تھا ویسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وہ لوگ پانچ کمروں کے مکان میں بیس لوگ رہتے تھے سجاد نے اس کے سامنے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس نے اس سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے بعد لارا کی حیثیت اس گھر میں ایک باندی کی سی ہو گئی جس کے ساتھ سجاد اور اس کے بھائی جنسی تعلق قائم کرتے تھے اور سجاد اس کو اس بات پر زود و کوب کرتا تھا کہ لارا اسلام قبول کر لے تاکہ سجاد اس کے ساتھ نکاح کر لے

پاکستانی نوجوان کا گھر

لارا کے مطابق ماہواری کے دنوں میں بھی اسے کسی قسم کے پیڈ یا دیگر اشیا فراہم نہیں کی جاتی تھیں اور وہ ان تکلیف دہ دنوں کو بھی بغیر کسی انتظام کے گزارنے پر مجبور تھی اس دوران اس کے ویزے کی معیاد بھی ختم ہو گئی مگر سجاد نے اس سے کہا کہ اب اگر اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو پاکستانی پولیس اس کو قید کر دۓ گی

آخر لارا نے کسی ذریعے سے آسٹریلین ایمبیسی سے رابطہ کیا اور ایک پاکستانی بزنس مین کی مدد سے کسی نہ کسی ذریعے سے واپس آسٹریلیا پہنچی ۔لارا اپنی زندگی کے ان دنوں کو ایک خوفناک ترین یاد سے تعبیر کرتی ہے اس کا یہ کہنا ہے کہ اس کی زندگی کا یہ دور بدترین دور تھا اور وہ سجاد کی یاد کو ایک بدترین خواب کی صورت بھلا دینا چاہتی ہے

To Top