میں نے پاکستان تحریک انصاف کیوں چھوڑی ایک سیاسی کارکن کی داستان

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میں ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے سبب میں پاکستان کے حالات دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھی مجھے اس ملک میں اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آرہا تھا کیوں کہ نہ تو ان کا تعلق بھٹو کے خاندان سے تھا اور نہ ہی وہ شریف خاندان کے آنکھ کے تارے تھے ایک عام پاکستانی تھے جن کے والدین کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہ تھا

ایسے وقت میں جب عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو مجھے لگا کہ اگر اس وقت ہم پڑھے لکھے لوگوں نے عمران خان کا ساتھ نہ دیا تو یہ بہت بڑا ظلم ہو گا ۔ یہ سوچ کر میں نے2011میں  پاکستان تحریک انصاف میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب لاہور میں تحریک انصاف کامیاب جلسہ کر کے لوگوں کو حیران کر چکی تھی

جب میں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اس وقت کراچی میں  جماعت متحدہ قومی مومنٹ کے متشددانہ رویے کے سبب لوگ کسی بھی دوسری پارٹی میں شمولیت سے قبل سو بار سوچتے تھے کیوں کہ سیاسی مخالقت کی سزا ایک بوری بند لاش کی صورت میں ملتی تھی ۔ اس وقت میں اس ڈر والی فضا میں سیاسی پس منظر نہ ہونے کے باوجود جب میں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو میرے پورے حلقہ احباب نے مجھ پر بہت لعن طعن کی یہاں تک کہ مجھے اس حوالے سے دھمکی آمیز پیغامات بھی ملے کہ اگر اپنے بچوں کا تحفظ چاہتی ہو تو گھر بیٹھ جاؤ

اس وقت اگرچہ پارٹی میں بہت بڑے بڑے نام نہ تھے مگر ایک جزبہ ایک جنون تھا صاف ستھرے پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا ۔ ہم لوگ اپنے وسائل استعمال کرتے اور کام کرتے ۔ ہمارا مرکز انصاف ہاو‎س تھا جو عمران خان کے کسی چاہنے والے نے اپنی طرف سے دے دیا تھا تاکہ تحریک انصاف کے لوگ اس میں مل بیٹھ کر کام کر سکیں

اس وقت پارٹی فنڈ نہ ہونے کے برابر تھا کوئی اپنے گھر سے کرسیاں لایا تو کوئی صوفہ کسی نے کمپیوٹر لا کر رکھا تو کوئی ٹھنڈے پانی کے لیۓ اپنے گھر کا فرج اٹھا لایا ہم بیٹھ کر کام کرتے لوگوں تک عمران خان کا پیغام پہنچانے کے لیۓ جدوجہد کرتے تھے اس وقت کام کرنے والے کسی فرد کے ذہن میں یہ نہ ہوتا کہ ہم نے ممبر اسمبلی بننا ہے یا پھر کسی عہدے پر پہنچنا ہے

عہدے بھی صرف نام کے ہوتے تھے ہر فرد کی ایک جیسی عزت اور وقعت ہوتی تھی ہمارا زور زیادہ سے زیادہ اس بات پر ہوتا تھا کہ ہم ان لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کریں جو غیر سیاسی ہیں اور پاکستان سے پیار کرتے ہیں اورگھروں پر بیٹھے ہیں ۔ دن رات کی محنت کے بعد ہم متوسط طبقے کی ایسی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گۓ جو کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں

اسی دوران 2013 کا الیکشن آگیا ہمیں امید تھی کہ ہم اس تبدیلی کی لہر کو اسمبلیوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں گے ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو الیکشن کا کوئی تجربہ نہ تھا ہم نے اس حوالے سے مختلف گروپ تشکیل دیۓ جو کہ اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو پولنگ ایجنٹ بننے کی تربیت دیتے

ہمارے بہت سارے امیدوار معاشی طور پر بہت کمزور تھے یہاں تک کہ ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہ ہوتے تھے کہ وہ پارٹی کے پینا فلیکس تک لگا سکیں ایسے لوگوں کے لیۓ ہم سب نے اپنے اپنے ذرائع سے چندہ جمع کیا اور ان کے علاقوں میں کام کیا جب الیکشن کا وقت آیا تو ہمارے پولنگ ایجنٹ کس کس طرح پورے کراچی میں تشدد کا نشانہ بناۓ گۓ یہ ایک الگ کہانی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے اس وقت موت کو بہت قریب سے دیکھا

یہ سب ہمارے جنون کو ختم کرنے کے لیۓ ناکافی تھا ہم سب کی ایک آرزو تھی کہ ہم عمران خان کو وزیر اعظم بنتے دیکھنا چاہتے تھے الیکشن کے نتائج ہماری توقع کے برعکس تھے ہم حیران تھے کہ یہ کیسے ہو گیا جب کہ ووٹر ہم کو یہ یقین دلا کر گۓ تھے کہ انہوں نے ووٹ تحریک انصاف ہی کو دیا مگر گنتی کوئی اور کہانی سنا رہی تھی اس وقت پہلی بار ہمیں فارم چودہ، فارم سولہ کے بارے میں پتہ چلا۔

الیکشن دھاندلی کے لیے جب عمران خان نے تحریک کا آغاز کیا اس وقت شاہراہ فیصل، تین تلوار اور شہر کے دیگر علاقوں میں دھرنے کے دوران بھی خواتین سب سے آگے تھیں یہاں تک کہ اب تو میڈیا بھی تحریک انصاف کے کسی بھی دھرنے میں خواتین کو سب سے زيادہ کوریج دیتی تھی ۔ ہم خواتین جن میں سے زیادہ تر کی پہلی سیاسی پارٹی ہی تحریک انصاف تھی

اس کے بعد جب پارٹی مضبوط ہو گئی تو مفاد پرست طبقے کی نظریں بھی تحریک انصاف کی جانب اٹھ گئیں ان کو لگا کہ کیا ہوا جو یہ پارٹی 2013 کا الیکشن نہیں جیت سکی اگلا الیکشن لازیم طور پر اسی پارٹی کا ہو گا لہذا اس میں جگہ بنا لینی چاہیۓ ۔ اس وقت تحریک انصاف میں برگر کلچر متعارف ہوا

کراچی کے پوش علاقے کے ان برگرز کو یہ بھی زعم تھا کہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں انہی علاقوں سے جیتی گئی ہیں اس وجہ سے تحریک انصاف درحقیقت صرف اور صرف برگرز کی جماعت ہے ہر ہر علاقے میں تحریک انصاف میں کلیدی حیثیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی گئی جو کہ پیسے والے بڑی بڑی گاڑیوں والے اور دوسری پارٹیوں سے کھاۓ کھیلے ہوۓ تھے

جن کی پارٹی میں شمولیت کی وجہ پاکستان کو بچانے کے بجاۓ اپنے مفادات کا حصول تھا تحریک انصاف کے لیۓ حون پسینہ ایک کرنے والے لوگ کہیں پیچھے رہ گۓ عمران خان بھی جب کراچی کا دورہ کرتے تو ان کے اردگرد یہی ٹولہ ہوتا جو ان تک عام انسان کو عام ورکر کو پہنچنے بھی نہ دیتا جس سے عمران خان تک اپنی بات پہنچانا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہوتا

اب پارٹی میں وہ لوگ تھے جو پارٹی میں پیسہ صرف اس لیۓ لگاتے تاکہ ان کی ذاتی شہرت ہو سکے اور جو پیسہ نہ لگا سکتا جس کی گاڑی بہت مہنگی نہ ہوتی وہ پارثی کی اہم میٹنگز میں شرکت کا بھی حقدار نہ ہوتا ۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والے ، انکم ٹیکس کھانے والے اور دیگر معاملات میں ملوث لوگ تحریک انصاف کو چلانے کے ذمہ دار ٹہرے

یہ عیاش لوگ پارٹی کی مخلص خواتین کو اگے لے جانے کے بجاۓ ان خواتین کو آگے لاتے جو کہ ان کی جائز نہ جائز خواہشات کی تکمیل کر سکتی تھیں ایسے حالات میں وہ خواتین جن کو اس یقین دہانی کے ساتھ ہم گھروں سے نکال کر لاۓ تھے یہ پارٹی اور اس کے لوگ دوسری پارٹیوں کی طرح نہیں ہیں ہمارا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر گھر بیٹھتی گئيں

اب جب سال 2018 کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے پارٹی میں کراچی الیکشن لڑنے کے لیۓ جن لوگوں کوٹکٹ جاری کیۓ گۓ ہیں ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو یا تو برگر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر جنہوں نے جمعہ جمعہ آٹھ دن قبل پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے

پارٹی کے مخلص لوگ کیسے کسی کرپٹ انسان کے لیۓ ٹکٹ کا تقاضا عام لوگوں سے کریں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ پورے کراچی میں تحریک انصاف کی تنظیم کسی بھی علاقے میں فعال نہیں ہے ۔ چند لوگوں نے تحریک انصاف کے نظریے کو اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لیۓ کھلواڑ بنا دیا ہے

ہم جیسے لوگ جو اب اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں ہمارے دل اب بھی تحریک انصاف اور عمران خان کے لیۓ دھڑکتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہم ایک بار پھر لٹیروں کو ووٹ ڈال کر اسمبلی میں نہیں پہنچا سکتے ہماری اپنے قائد سےایک ہی درخواست ہے کہ براہ مہربانی چہرے نہیں نظام بدلنے کی جدوجہد کو جاری رکھیں ہم سب ان کے ساتھ ہیں

To Top