پاکستان میں شیعوں کا قتل عام: کیاحکومت، عدلیہ اور میڈیا جانبداری کے مرتکب ہو رہے ہیں؟

پاکستان ایک اسلامی اور نظریاتی ملک ہے ، جوکہ اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا ۔ یہ ملک تمام مسالک، تمام مکتبہ فکر کا یکساں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی جدوجہد میں بانی پاکستان اگر شیعہ مسلک کے مقلد تھے تو لیاقت علی خان کا تعلق سنی مکتبہ فکر سے تھا مگر یہ فرق قیام پاکستان کی راہ میں حائل نہ ہو سکا ۔

قیام پاکستان کے بعد سولہ سترہ سال تک کا عرصہ وہ دور تھا جب کہ پاکستان میں مذہبی یکجہتی و ہم آہنگی پائی جاتی تھی اقلیتوں کو بھی یکساں مذہبی حقوق حاصل تھے ۔ ہر مسلک کو نہ صرف اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت تھی بلکہ دیگر مسالک کی جانب سے ان کا احترام بھی کیا جاتا تھا ۔ مگر پھر فوجی ڈکٹیٹر کو پاکستان میں اپنی حکومتی دور کو قائم رکھنے کے لئے جواز کی تلاش ہوئی ۔ ضیا الحق صا حب نے اقتدار تو منتخب وزیر اعظم کو معذول کر کے حاصل کر لیا تھا مگر اس کو دوام بخشنے کے لئے ضروری تھا کہ ملک انتشار کا شکار ہوتا تاکہ اس کو وجہ بنا کر وہ ذیادہ وقت تک اقتدار قائم کر سکیں۔

03

Source: The Diplomat

لہذا اس دور میں پاکستان کے مسلمانو‎ں میں نفرت کا بیچ بویا گیا ۔ ان لوگوں کو جو باہمی محبت کی ڈور سے بندھے تھے شیعہ کافر کے نعرے سے آشنا کیا گیا اور پھر اس معاملے میں بین الاقوامی قوتیں جو پاکستان کی ترقی کو حسد کی نظر سے دیکھ رہی تھیں وہ بھی کود پڑیں۔ انہوں نے اپنے خزانوں کے منہ ہر اس فرد کے لئے کھول دیئے جو اس نفرت کے پرچار میں ان کا ہمنوا ہوتا گیا ۔

11

Source: NCA Academy

اسی فنڈ نگ کے نتیجے میں تحریک طالبان، سپاہ صحابہ، اہل سنت والجماعت ،لشکر جھنگوی ، جند اللہ اور جیش اسلامی جیسی عسکری تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا اور پھر ایسے جہادیوں کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوا جن کا کام جہاد کے نام پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں ، بہنوں، ماؤں اور بچوں کو مارنا تھا ۔اس عمل کا بدترین پہلو پہ ہے کہ ریاستی طور پر ان واقعات کو شیعہ نسل کشی کے بجاۓ صرف دہشت گردی سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ جس کے سبب بین الاقوامی طور پر انسانی حقوق کی کمیشن کی رپورٹ کے باوجود کوئی موثر اقدام نہیں کئے جارہے۔

10

Source: karachireports – WordPress.com

یہی وجہ ہے کہ پچھلے چار سالوں میں ایسے واقعات میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور صرف سندھ اور بلوچستان میں تقریبا ساڑھے سات سو حملے شیعہ قومیت پر کیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں تقریبا ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ شیعہ شہید ہوۓ ۔ اس تعداد کو دیکھ کر یہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب عمل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔مثال کے طور پر پڑھے لکھے پروفیشنل لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہہے جیسا کہ ڈاکٹر ابن حسن، پروفیسر سبط جعفر،خرم ذکی اور ایسے بہت سارے قابل لوگ شہید ہوۓ جو کہ اگر آج زندہ ہوتے تو ہمارے ملک کا سرمایہ ہوتے۔

07

Source: The Friday Times

دوسرا اہم عنصر جو اس نسل کشی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے وہ عدلیہ کا غیر موثر کردار ہے ۔ وہ لوگ جو اس نسل کشی کے جرائم میں ملوث پاۓ گئے عموما مقدمات کی عدم پیروی یا پھر ججوں اور وکلا کی ایسے مقدمات کی دوسری عدالتوں میں منتقلی کی درخواست کے باعث بری ہو جاتے ہیں ۔اور سزا نہ ملنے کے سبب نہ صرف ان کے حوصلوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ بربریت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے یہاں تک کہ اب انہوں نے کوئٹہ اور کراچی میں گھروں میں گھس کر مجالس کے شرکاء کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

ان حالات میں حکمرانوں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ معصوم شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں اور شیعہ نسل کشی میں ملوث لوگوں کو سخت سے سخت سزائیں دیں تاکہ عوام کے اندر موجود اس عدم تحفظ کے احساس کا خاتمہ کیا جاسکے۔

کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے کپتان کی ٹائیگر فورس میدان میں اترے گی

To Top