پاکستان کا عالم دنیا میں کون اپنا کون پرایا؟ ایک واقعے نے سب راز کھول دیا

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

پاکستان کی ہرایک ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے، اس کو بچپن سے یہ بات سمجھانا شروع کردے کہ کون اس کے اپنے ہوتے ہیں اور کون اس کے غیر، جیسا کہ یہ تمہارا بڑا بھائی ہے، وہ والا چھوٹا بھائی، وہ بڑی بہن، پھر ویسے ہی وہ خالہ، وہ پھوپی، چاچا، ماموں وغیرہ۔ یہ تمام تمہارے اپنے ہی ہیں، لہذا اب تم پر لازم ہے کے تم ان کا احترام کرو اور ان کی فرما نبرداری بھی کرو، یہ تم سے بڑے ہیں اس لیے عزت کے حق دار بھی ہیں۔

مگر جب بچہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنی جوانی داخل ہوتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے والدہ تو دنیا سے چلے گئیں، ایک ہی باپ باپ تھا جس نے دوسری شادی کرلی کیونکہ یہ بھی بعد میں ہی معلوم ہوا کے اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے، بہن اپنے گھر میں شوہر اور اپنے بچوں کے ساتھ مصروف ہے،  بھائی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہے، پھوپھی فی الحال اپنے بچوں کے لیے رشتے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، خالہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ مصروف ہیں، چاچا اور مامے اپنی دنیا میں مست چل رہے ہیں، اور میں بیوقوف سب کو اپنا سمجھتا سمجھتا اکیلا کھڑا ہوں، اور اپنی والدہ کے سکھائے ہوئے پرانے سبق یاد کر رہا ہوں کے والدہ نے کن کن لوگوں کو اپنا بتایا تھا۔

یہی دکھ مجھے اپنی دھرتی ماں کے ساتھ بھی ہے، جس نے ہمیں بچپن سے سکھایا کے کون کون سے لوگ اپنے ہیں، کون کون لوگ غیر اور کون کون ہمارے دشمن ہیں۔ ہمیں بچپن سے آج تک یہی سکھایا گیا کہ سعودی عرب کے لوگ حقیقی مسلمان ہیں، اور سعودیہ عرب ہماری دھرتی ماں کا بہت پیار کرنے والا دوست ہے، اور اس لیے ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ اس کے لیے حاضر ہے، بیشک سعودیہ عرب والوں کی طرف سے پیٹرول کا ایک قطرہ بھی حاضر نہیں۔

Source: DNA News Agency

اسی طرح افغانستان کے لیے بھی ہمیں سکھایا گیا کے ہماری آپ کے لیے جان حاضر ہے، اپ کے ہر قسم کے جہاد میں ہمارے جوان حاضر ہیں، اپ کے لیے ہمارے ملک کے ہمیشہ کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ بنگلہ دیشی ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں، کیونکہ وہ سب بھی ہماری طرح مسلمان ہیں اور مسلمان مسلمان تو آپس میں ویسے ہی بھائی ہوتے ہیں۔ بھارت ہمارا بچپن سے ہی ایک دشمن ہے اور تا قیامت ہمارا دشمن ہی رہے گا، اور موجودہ وزیراعظم نریندرمودی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔

Source: Samaa TV

ہماری دھرتی ماں نے امریکہ کے لیے ہمیشہ سے کوئی ایک موقف نہیں رکھا گیا، کبھی ہمارا بہت اچھا دوست ہوتا ہے. اور کبھی بہت بڑا دشمن ،جیسا کہ آج کل ہمارا دشمن بنا ہوا ہے، ہمیں کہتا ہے تم لوگ دہشتگردوں کو پال رہے ہو۔ یہ الزام سنتے ہی ہم سب اپنی پھوپھی خالہ وغیرہ کی طرف مظلومیت کے ساتھ دیکھنا شروع ہوگئے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن، مسلمانوں کے خون کا پیاسا موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، وہ سعودیہ عرب کے بادشاہوں سے ملاقات کر رہا ہے، اور ہمارے اپنے بھی ان کا شاندار استقبال کر رہے ہیں.

Source: Khaama Press

پھر ہم نے دیکھا کہ ہمارے اپنے افغانستان کے مظلوم بھائی بھی ہمیں دہشتگر ملک بول رہیں اور ہمارے بچپن کے دشمن بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ہمارے ناراض مسلمان بنگالی بھائیوں کی بہن شیخ حسینہ ہمارے بچپن کے دشمن بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ ہمارے خلاف ہوگئی ہیں۔ اب جب ہم اکیلے ہوچکے ہیں تب ہمیں اپنی دھرتی ماں کی پرانی باتیں یاد آرہی ہیں کے کون کون اپنا تھا اور کون کون غیر، سب اندازہ ہوچکا ہے کے جب تک ہم پھوپھی اور خالہ کے لیے انڈے ڈبل روٹی لاتے تھے تب تک ہم بہت اچھے بچے تھے. اور اب نہیں لاتے تو برے بچے ہوگئے۔

جب تک ہم امریکہ کی ہر بات مان رہے تھے تب تک ہم اچھے اور فرمانبردار بچے تھے، اب جب ہم مزید باتیں نہیں مان رہے، تو بہت ہی برے بچے بن گئے ہیں، اور برے بچوں کا نام گرے لسٹ grey list میں ڈال دیا جاتا ہے۔

یہ تو دنیا کا اصول ہے کہ ہر بڑا انسان اپنے سے چھوٹے انسان کو مختلف قسم کے مفاد حاصل کرنے لیے رکھتا ہے، اور اس کام کے اس کی حیثیت کے مطار رقم بھی دی جاتی ہے، یہ اصول یا فارمولا پوری دنیا کے ہر قسم کے ادارے میں چلتا ہے۔

کاش ہماری دھرتی ماں بچپن سے ہی ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کر دیتی کے کوئی بھی ملک اپنا نہیں ہے، اگر کوئی اپنا ہے تو تب تک ہے جب تک کے اس کے ہم سے مفاد ہیں، اس لیے ان تمام ملکوں کی طرح ہمیں بھی صرف اپنے ہی مفاد دیکھنے ہیں، ہم نے اپنے مفاد کی خاطر اندر کے دشمنوں کو شکست دینی ہے۔ مزہبی انتہاء پسندی کو جڑ سے ختم کر کے ایک پر امن اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح اپنا ملک بھی بنانا ہے جہاں ہر رنگ و نسل اور ہر مذہب کا انسان آزادی اور سکون سے اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے۔

To Top