مشترکہ خاندانی نظام میں نوبیاہتا جوڑے کو کون سے ازدواجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جانیۓ

شادی زندگی کا ایک اہم موڑ ہوتا ہے جس کی کامیابی کا انحصار میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات پر ہوتا ہے ۔ویسے تو ہمارے معاشرے میں شادی کا مطلب دو گھرانوں کا ملاپ ہوتا ہے اور مشترکہ خاندانی نظام کے سبب شادی کا تعلق صرف دو افراد سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے گھر کا ہر ہر فرد جڑا ہوتا ہے ۔اور اس سے خاندان کے ہر فرد کی زندگی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔


جیسے کہ گھر میں بہو کی صورت میں ایک فرد کا اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ بیک وقت بہو ،بھابھی ۔چچی کے روپ میں ہوتی ہے ۔ گھر کا ہر فرد اس بات کا خواہشمند ہوتا ہے کہ گھر کا یہ نیا فرد اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹائم گزار سکے اور اس سب کے نتیجے میں نوبیاہتا جوڑے کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ صورتحال کافی مضحکہ خیز ہوتی ہے ۔

بیڈ روم لائف

Wedding – Parhlo Urdu

Posted by Parhlo Urdu on Sunday, January 28, 2018

نوبیاہتا جوڑے کی شادی کے بعد ان کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔ جو کہ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک انتہائی دشوار ترین مرحلہ ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے اکثر نوبیاہتا جوڑے کو ایسے مزاقوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ انہیں سب کے سامنے شرمندہ کروا دیتا ہے ۔

مثال کے طور پر شادی کی پہلی رات دولہا کے ہم عمر لوگ اس کے کمرے میں چھپ جاتے ہیں یا پھر اس کے پلنگ پر ایسے آواز والے کھلونے رکھ دیتے ہیں جن کی آوازیں نوجیاہتا جوڑے کو خوفزدہ کرنے کے لیۓ کافی ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد اگر گھر کے سب افراد بھی اس جوڑے کو کمر میں تنہا چھوڑ بھی دیں تب بھی باہر سے آنے والی آوازیں ان کو یکسوئی نصیب نہیں ہونے دیتی ہیں ۔

ہنی مون

مشترکہ خاندانی نظام میں نوبیاہتا جوڑے کا ہنی مون کی منصوبہ بندی کرنا بھی ایک دشوار امر ہوتا ہے ۔پہلے تو پورا خاندان اس جوڑ ے کو ہنی مون کے لیۓ اپنے ساتھ لے جانے کے لیۓ تیار ہوتا ہے اگر سمجھا بجھا کر اکیلے جانے پر راضی کر بھی لیں تو پھر مرحلہ جگہ کے انتخاب کا ہوتا ہے ۔

ہر فرد اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر اس جوڑے کو ایسی جگہ ہنی مون پر بھیجنے کے لیۓ بضد ہوتا ہے جہاں وہ خود جانے کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ اور اگر ایک بندے کی بتائي ہوئی جگہ کا انتخاب کیا جاۓ تو دوسرا ناراض اس طرح ہنی مون کے لیۓ جگہ کا انتخاب بھی ایک مشکل ترین مرحلہ بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد ہنی مون سے واپسی پر سب کے لیۓ تحائف کی اور ان کی فرمائشوں کی خریداری ہنی مون کو ایک شاپنگ ٹور میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

کھانے کی ٹیبل پر

پرانی کہاوت ہے کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے مگر مشترکہ خاندانی نظام میں اپنے شوہر کی پسند کا کھانا بنانا بھی ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے ۔ راستے میں آنے والی رکاوٹیں اور مشورے اس کھانے کی ہییت ہی تبدیل کر دیتے ہیں ۔

ساس مشورہ دیتی ہیں میرا بیٹا مرچیں برداشت نہیں کر سکتا تو سسر کہتے ہیں گھی کم ڈالنا ، دیور نند کا اصرار ہوتا ہے کھانا چٹپٹا ہونا چاہیۓ اور اس طرح جو کھانا بنتا ہے وہ شوہر کے دل تک تو کیا جاۓ گا پیٹ تک بھی نہیں پہنچ پاتا ۔

آوٹنگ کے لیۓ جانے کا پروگرام

نوبیاہتا جوڑا شادی کے بعد زیادہ سے زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں گزارنے کا متمنی ہوتا ہے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں مگر مشترکہ خاندانی نظام میں یہ موقع قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے ۔اگر کسی چھٹی میں کہیں جانے کا پروگرام بنا بھی لیا جاۓ تو مشترکہ خاندانی نظام ہونے کے سبب یا تو سب لوگ اس پروگرام میں شریک ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی ضد کر کے اکیلے چلا بھی جاۓ تو واپسی پر سب کے پھولے ہوۓ منہ دیکھ کر اس آوٹنگ کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے ۔

تحائف دینا

تحفے دینے سے محبت بڑھتی ہے اس لیۓ نو بیاہتا جوڑے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کو تحائف دیں مگر ان تحائف کو گھر والوں کی نظر سے پوشیدہ رکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام میں جاسوسی کا نظام اتنا موثر ہوتا ہے کہ گھر والوں کی نظر سے پوشیدہ رکھ کر اپنی جیون ساتھی کے لیۓ کچھ لے کر آنا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔

ایک تو یہ تحفے سب کی نظر مین آجاتے ہیں اس کے بعد ان تحائف پر ہونے والے تبصرے اور لطیفے اگرچے گھر والوں کے لیۓ تو صرف ایک مزاق ہوتے ہیں مگر نو بیاہتا جوڑے کے لیۓ وجہ تنازعہ بن جاتی ہے ۔

ان سب باتوں کے باوجود یہی نوبیاہتا جوڑا جب پرانا ہوجاتا ہے تو پھر یہ ساری باتیں ان کے لیۓ خوشگوار یادیں بن جاتی ہیں اور یہ بھی وقت کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام میں اتنے رچ بس جاتے ہیں کہ اپنی سے اگلی آنے والی نسل کی راہ میں بھی وہ تمام روڑے اٹکاتے ہیں جن کا سامنا ان کو خود کرنا پڑا تھا ۔

To Top