نجی ٹی وی چینل کا ایک اور جھوٹ: معصوم خواتین ایک بار پھر نشانے پر

کل ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک ڈاکومینٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ پاکستان میں موجود خواتین کی جیل میں حالت زار کے بارے میں تھا۔ اس ڈاکومینٹری کے مطابق جیل میں خواتین کو ہر سہولت حاصل تھی۔ ان کے بچوں کے لۓ اسکول ،ان کے لۓ ہسپتال ،اور اس کے علاوہ ایسے ری ہیبیلیٹیشن سنٹر بھی موجود تھے جہاں وہ نہ صرف نئے ہنر سیکھ سکتی تھیں بلکہ ان کے ذریعے پیسے بھی کما سکتی تھیں ۔یہ سب دیکھنے کے بعد پہلا خیال تو یہ آیا کہ اللہ کرے جیسے یہ کہہ رہے ہیں پورے پاکستان میں واقعی ایسا ہی ہو

7

Source: Daily Mail

 

بی بی سی کو حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں پندرہ سو سے زائد خواتین قیدی موجود ہیں جنہیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ ان مقدمات میں قتل، اغوا، منشیات کی سمگلنگ اور حدود آرڈنینس کے مقدمات شامل ہیں۔ سب سے زیادہ خواتین قیدی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہیں جن کی تعداد 1364 ہے جبکہ صوبہ سندھ میں 102 صوبہ سرحد میں 84 اور صوبہ بلوچستان میں خواتین قیدیوں کی تعداد 37 ہے۔

ڈیتھ سیل میں 42 خواتین ہیں جن میں سے 24 خواتین ملتان میں خواتین جیل میں جبکہ بقیہ ملک کی دوسری جیلوں میں اپنی سزائیں کاٹ رہی ہیں۔ان 1587 خواتین قیدیوں میں سے 267 نوعمر ہیں جبکہ 4 نابالغ ہیں۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 278 خواتین قیدی ہیں جن کے ساتھ اُن کے 64 شیر خوار بچے ہیں۔ان میں سے 3 خواتین موذی مرض میں مبتلا ہیں، 14 خواتین کو ٹی بی ہے اور 7 خواتین ہپٹائٹس کا شکار ہیں۔

04

Source: Dawn

ذرائع کے مطابق مختلف جیلوں میں قید خواتین قیدیوں میں سے 7 ایسی خواتین ہیں جن کی عمر 60 سال سے زائد ہے۔ ان میں فیصل آباد کی جیل میں سرداراں بی بی عمر 70 سال، فیصل آباد جیل میں ہی تسلیم مائی عمر 63 سال، ملتان جیل میں سُندراں عمر 69 سال، سینٹرل جیل گوجرانوالہ میں صغراں عمر 71 سال، سیالکوٹ جیل میں کُبریٰ بی بی عمر 69 اور ساہیوال جیل میں آمنہ بی بی عمر 63 سال شامل ہے۔

پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید خواتین قیدیوں میں زیادہ تر خواتین منشیات کے مقدمات کی وجہ سے ہیں جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔گذشتہ ایک سال کے دوران 31خواتین قیدیوں نے قید کے دوران بچوں کو جنم دیا جن میں سے 13 حدودآرڈنینس ، 10 قتل،4 اغوا اور 2 ڈکیتی ایک چوری اور ایک منشیات کے مقدمے میں ملوث ہیں۔

2

پورے پاکستان میں خواتین کے لۓ علیحدہ سے کوئی جیل موجود نہیں ہے۔ علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے کے سبب کئی عورتیں اپنی جان سے جا چکی ہیں۔ عورتیں اپنی قید کی مدت پوری کرنے کے باوجود مناسب قانونی امداد نہ ہونے کے سبب آج تک جیلوں میں سڑ رہی ہیں۔

05

Source: Daily Mail

ایک اور اہم نکتہ جو کہ سینٹ کی جیل خانہ جات کی قائمہ کمیٹی میں بھی اٹھایا گیا وہ رات کے اوقات میں جیل میں قید خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی بدسلوکی ہے ۔ اس میں جیل کے ملازمین بھی شامل ہیں ۔ اور اس کا سدباب صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ خواتین کی علیحدہ جیلیں بنائی جائیں ۔ورنہ ہر رات کوئی نہ کوئی خاتون اپنی سزا کے ساتھ ساتھ یہ دوہری سزا بھگتتی رہے گی ۔مختلف نجی تنظیمیں اس مسئلے پر وقتا فوقتا آواز اٹھاتی رہتی ہیں مگر ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں بھی رینگتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔

اس کے ساتھ ساتھ جیل میں قید خواتین کے ساتھ ان کے بچوں کی حالت بھی بہت ابتر ہے۔ ان کی بہتری کے اقدامات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ ہم معاشرے کے اندر مزید جرائم پیشہ افراد بڑھانے کا سبب بن رہے ہوں گے ۔ یہ سب کچھ اسی وقت ٹھیک ہو سکتا ہے جب کہ ہم ان کو بھی نہ صرف انسان سمجھیں بلکہ معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی کوشش کریں

To Top