‘سیلفی لیتے ہوۓ اچانک ۔۔۔۔ ہوا اس کے بعد پل ٹوٹ گیا’ نیلم پوائنٹ کے حادثے کے عینی شاہد نے ہوشربا انکشاف کر دیۓ

گرمیوں کے موسم میں تفریح طبع کے خیال سے ہر خاندان والے کہیں نہ کہیں سیر و تفریح کا پروگرام ضرور بناتے ہیں ۔ اس پروگرام میں ہر انسان کے پیش نظر یہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنی سال بھر کی ذہنی تھکن کو ختم کر کے دوبارہ سے ترو تازہ ہو سکے اسکول کالجز اور یونی ورسٹی والے بھی اسی خیال کے پیش نظر ہر سال اپنے بچوں کے لیۓ سالانہ پکنک کا اہتمام کرتے ہیں

لاہور کے میڈیکل کالج کے کچھ طالب علموں نے بھی سالانہ پکنک کا اہتمام مظفر آباد کے دریاۓ نیلم پر منانے کا پروگرام بنایا اس پروگرام کے تحت جب وہ دریاۓ نیلم تک پہنچے تو تفریح طبع کے خیال سے تمام طالب علم ایک ساتھ اس دریاۓ کے اوپر بنے ہوۓ رسی اور لکڑی کے پل پر کھڑے ہو کر تصویریں بنانے لگے

حالانکہ اس پل کے حوالے سے انتظامیہ کا تحریری نوٹس موجود تھا کہ اس پل پر ایک وقت میں چھ سے زیادہ افراد کا کھڑا ہونا منع تھا مگر بدقسمتی سے ان پڑھے لکھے طالبعلموں نے اس نوٹس کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور سب نے بیک وقت کھڑے ہو کر اس پل پر تصویریں بنوانی شروع کر دیں ۔

مگر بدقسمتی سے یہ تصویریں ان کی آخری تصویریں ثابت ہوئیں اور پل ان کا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا ۔ دریاۓ نیلم کا پانی اس وقت برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا جیسے ہی طالب علم اس پل میں گرے ان میں سے زیادہ تر تیراکی نہیں جانتے تھے اور اس اچانک افتاد کا مقابلہ نہ کر سکے اور اپنے اوسان کھو بیٹھے

ایک عینی شاہد کے مطابق جو کہ نیلم پوائنٹ کے  پل ٹوٹنے کے وقت وہیں پر موجود تھا اس کا کہنا تھا کہ جب پل ٹوٹا تو جو لوگ پل پکڑ کر لٹک رہے تھے ان کو ارد گرد کے لوگوں نے بچا لیا اور جو لوگ دریا میں گرے ان  لوگوں کو سخت ٹھنڈے پانی اور دریا میں موجود چٹانوں کے سبب گہرے زخم آۓ

اس عینی شاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ پانی میں گرا تو اس نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیۓ جس کے سبب اس کے ہاتھ میں جب ایک چٹان آئی تو وہ اس سے چمٹ گیا مگر پانی بہت ٹھنڈا تھا اس کو مدد کرنے والوں نے بچا لیا ۔ اس پل پر تصویر کھنچوانے والے طالب علموں کی تعداد تقریبا پچاس تک تھی جس میں سے چالیس افراد کے ڈوب کر ہلاک ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔

مستقبل کے ان معماروں کی موت ہم سب کے لیۓ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس حادثے کا ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس پل موجود نوٹس کے باوجود اتنے لوگوں کو اس پل پر جانے سے نہ روکا یا پھر وہ اساتذہ جو بچوں کو پکنک پر تو لے گۓ لیکن ان کی حفاظت سے بری الزمہ ہو گۓ

ذمے دار کوئی بھی ہو اتنے بچوں کی ہلاکت ہمارے لیۓ ایک بڑا نقصان ہے اور اس حوالے سےآئندہ تمام تعلیمی ادارو ں کے سربراہان کو ایک ایسا ضابطہ عمل بنانا چاہیۓ جس سے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے

To Top