نظم ۔اک عمر گزاری تھی تیرے انتظار میں

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

ایک عُمر گزاری تھی، تیرے انتظار میں

جب تُو ملا، دل ڈوب گیا تیرے پیار میں

نہ جانے کیوں بدل گیا یوں جھٹکے میں دل تیرا

تیرے بن نہ تھا کوئ، نہ ہے کوئ اب میرا


ایک برس نہ نبھا سکا تو محبت میں کئے وعدوں کو

نہ کوئ جواز، نہ لحاظ، بکھرا دیا میرے ارادوں کو

تم دنیا کی بات کرتے ہو اپنوں کو زخم دے کر

کیا خُوش رہ سکوگے تم، اپنے دل میں یہ قرض لے کر؟

جب عُمر تمہاری گزرے گی، تمہیں وہ جوُن یاد آَئے گا

جب سامنے تم میرے تھے، اب ہر جُون تمہیں یوں ہی ستائے گا

جو چھوڑ دیا مجھ کو، بغیر وجہ کو پیش کرے

پھر سے ہمارا سامنا ہو، یہ دل اب التجا کرے

تمہارے دل میں نہ صحیح، دماغ میں ہے میرا گھر

نکال سکو تو نکال دو، محبت لگے گی تم کو مضرِِنظر

عُمر ہو کر میری عُمر کا تو کرلیتے احترام

چھ برس کی محبت کایہ کردیا تم نے انجام؟

جُون لوٹ رہا ہے، تم لوٹو گے اُس جوُن کے ساتھ

پر اب نہ ملوں گی میں اور تڑپو گے تم ہر ایک رات

جس کرب سے میں گزری، وہ نہ سہہ سکوگے تم

نہ ملے گی کوِئ دوا، نہ ملے گا کوئ مرہم

خانہ بدوش سا دل اب گھر نہ ڈھونڈ پائے گا

جس دنیا کی تم بات کرتے تھے، اُسی میں بے گھر رہ جائے گا۔

 

To Top