نظم – اب کے عید گزری

شوخ رنگوں نے جلا بخشی شوخیء چنچل کو
ہوا ملن، کہیں انتظار میں، اب کے عید گزری

کنواری چوڑیوں کی گونجی چھنک چہار سو
خواہش وصل میں جانے کتنوں کی، اب کے عید گزری

شرافت کدوں کی شرافتوں کا کہیں ڈھلکا آنچل
نظر بازیوں کے ثواب کماتے ، اب کے عید گزری

کچھ دکھاوے کی ہوئیں عنایتیں حسب روایت یتیموں پہ
ادھار کی خوشیاں سمیٹتے ان کی، اب کے عید گزری

اپنے جو لوٹ گۓ واپس رب کی اور
ان پیاروں کی یاد میں، اب کے عید گزری

اولڈ ہومز میں جان سے پیارے بچّوں کے انتظار میں
اکھیاں بچھاۓ والدین کی، اب کے عید گزری

پڑا ہے گلے میں طوق بھی مہنگائي کا اب تلک
ہر سال کی طرح پریشان مسکراہٹیں لئے، اب کے عید گزری

فاقہ کشی پر پردہ ڈالتے ہوۓ کتنے ہی
خودّار سفید پوشوں کی، اب کے عید گزری

دل پرسوز سنبھل کر دیکھ نقشہ جہاں کا
جانے کسے ہنساتے، کسے رلاتے، اب کے عید گزری

انقلاب کتاب کی وجہ سے نہیں ہمیشہ صاحب کتاب کی وجہ سے آیا ہے

To Top