اٹھائیس جولائی 2017 پاکستان کی تاریخ کا وہ یادگار دن قرار دیا جا رہا ہے جب آزاد عدلیہ نے تمام قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ملک کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی کرپشن کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا ہے ۔
پاکستان کی تاریخ کی یہ اولین مثال ہے جب کرپشن کی بنیاد پر کسی منتخب وزیر اعظم کو اس طرح گھر بھیجا گیا ہے ۔چونکہ یہ عمل کبھی پہلے نہیں کیا گیا اس لۓ ہماری معصوم قوم کے علم میں یہ نہیں ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا ۔
آئینی طور پر چونکہ اسمبلی میں مسلم لیگ ن سب سے ذيادہ اکثریت رکھنے والی پارٹی ہے لہذا ابھی بھی اس بات کا اختیار اسی جماعت کے پاس ہے کہ وہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم کا نام پیش کرے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چونکہ مریم نواز اور اسحق ڈار بھی نااہل ہو چکے ہیں اور شہباز شریف چونکہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں لہذا ان کا نام بھی وزیر اعظم کے طور پر نہیں آسکتا ۔
اس وقت وزارت عظمی کے سب سے مضبوط امیدوار خواجہ آصف قرار دیۓ جا رہے ہیں مگر تحریک انصاف کی جانب سے ان کا اقامہ بھی پیش کیا جا چکا ہے جس سے اندیشہ ہے کہ ان کے خلاف بھی نااہلی کا ریفرنس آسکتا ہے اسی سبب مسلم لیگ ن ایک بار پھر اپنے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کا خطرہ مول نہیں لے گی ۔
اس کے بعد وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں میں چوہدری نثار شامل ہیں جو فیصلے سے ایک دن قبل ہی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر چکے ہیں ۔ان تمام حالات کو دیکھتے ہوۓ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ حکمران جماعت انتہائی مشکل کا شکار ہے ۔
وزیر اعظم کے نام کے اعلان کے بعد اگلا مرحلہ اس کا اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کا ہے ۔مگر بادی النظر میں یہ بھی انتہائی دشوار نظر آرہا ہے کیونکہ باوثوق ذرائع سے اس بات کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ن کے 35 ارکان اسمبلی عمران خان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور وہ اس فیصلے کا انتظار کر رہے تھے جس کے بعد وہ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کسی بھی وقت کر سکتے ہیں ۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوۓ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ملک قبل از وقت الیکشن کی جانب جا رہا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں ملک کو اس سیاسی بحران سے کس طرح نکالتی ہیں ۔