نقیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں ہلاکت، سوشل میڈیا پر پولیس کا خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا

گزشتہ ہفتے ایس پی راؤ انوار کی جانب سے ایک پولیس مقابلے کے نتیجے میں طالبان کے چار دہشت گردوں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کیے جانے کا دعوی سامنے آیا تھا جن میں سے ایک نقیب اللہ محسود بھی تھا جس کا تعلق جنوبی وزیر ستان سے بتایا جاتا ہے ۔ جسے عثمان خاص خیلی گوٹھ کراچی میں ایک پولیس مقابلے کے نتیجے میں ہلاک کر دیا گیا ۔

نقییب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد راؤ انوار نے بتایا کہ مارے جانے والے دہشت گرد کئی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے تعلقات کالعدم لشکر جھنگوی اور داعش سے ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں تاہم اس وقت راؤ انوار صاحب نے یہ نہیں بتا یا تھا کہ مرنے والوں میں نقیب اللہ بھی شامل ہے ۔

راؤ انوار کے مطبق نقیب اللہ  کا تعلق جنوبی وزیرستان کے تحصیل مکین سے تھا جہاں پر وہ ٹی ٹی پی کے کمانڈر کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتا تھا مگر اس کے جواب میں اس کے ایک قریبی عزیز کا یہ کہنا تھا کہ نقیب سہراب گوٹھ کے علاقے میں ایک کپڑے کی دکان کا مالک تھا اور اس کا تعلق کسی قسم کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے نہ تھا ۔

اس کے عزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ نقیب اللہ محسود کو اس کی دکان سے گزشتہ مہینے کچھ سادہ لباس والے زبردستی لے کر گۓ تھے  نقیب اللہ  اس دکان سے قبل حب چوکی کے ایک پیٹرول پمپ میں ملازم تھا وہ تین بچوں کا باپ تھا ۔اس کو ماڈلنگ کا شوق تھا اس کے اس شوق کو اس کی فیس بک پروفائل پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جو کہ نقیب مسید کے نام سے بنائی گئي تھی ۔

اس کے عزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ نقیب اپنے بیٹے کو بڑا ہو کر آرمی آفیسر بنانا چاہتا تھا جس کا ثبوت نقیب کے فیس بک پیج پر اس کے بیٹے کی تصویر کے ساتھ موجود ہے تو ایسا انسان جو اپنے بیٹے کو فوجی بناۓ اور خود ملک کے فوجیوں پر حملے میں ملوث ہو کیا یہ ہو سکتا ہے ؟

اس کے جواب میں  راؤ انوار صاحب کا یہ کہنا تھا کہ سانحہ کارساز کی پلاننگ کے ساتھ ساتھ وزیر ستان میں فوجیوں پر حملوں کی دہشت گردانہ وارداتوں میں نقیب کی شمولیت کے شواہد ملے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کمانڈر شیر داؤد کا قریبی رشتہ دار تھا اور اسی کے کہنے پر اس نے 2007 سے 2008 تک دہشت گردی کی عملی ٹرئننگ بھی حاصل کی تھی ۔

سوشل میڈیا پر اس پولیس مقابلے کو نہ صرف جعلی قرار دیا جارہا ہے بلکہ اس حوالے سے نقیب کی تصاویر کے ساتھ باقاعدہ طور پر آواز اٹھائی جا رہی ہے مگر اگر ماضی کو دیکھا جاۓ تو کبھی بھی اس حوالے سے پولیس کے خلاف کوئي کاروائی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ بھی ایسے واقعات کو فراموش کر کے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔

To Top