نقیب اللہ ایک معصوم انسان یا پھر ایک دہشت گرد تھا ؟؟

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

جس طرح تمام سویلین ایک جیسے نہیں ہوسکتے، ویسے ہی تمام پولیس اہلکار بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے

نقیب اللہ کے قتل کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، پاکستان میں ہر زبان کے بولنے والے افراد پولیس مقابلے میں ماردیے جاتے ہیں، یا تو جبری گمشدگی کے نام پر غائب کر دیے جاتے ہیں، کبھی بلوچ اس کا شکار ہوتے ہیں، کبھی سندھی، کبھی اردو بولنے والے تو کبھی پنجابی یا پشتون بولنے والے، اگر پنجاب کی پولیس دن دیہاڑے ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کا قتل کر سکتی ہے تو سندھ کی پولیس رات کے اندھیرے میں نقیب کا قتل کیوں نہیں کرسکتی؟

نقیب اللہ کے رشتے دار نور رحمان کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ کو 3جنوری کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے سادہ لباس پولیس اہل کاروں نے حراست میں لیا اور 12 تاریخ کو نقیب اللہ کو راؤ انوار نے مقابلے میں مار ڈالا۔

ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب کو عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا گیا،

اس طرح کے قتل کرنے والے پولیس اہلکار لازمی کوئی نسل یا مزہب میں فرق نہیں دیکھتے ہونگے، تمام زبانوں سے تعلق رکھنے والے نا پسندیدہ افراد کو اس طرح مار دیتے ہونگے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مرنے والوں کے لیے آواز اْٹھانے والوں میں واضح تفریق نظر آتی ہے

جیسے اردو بولنے والا مارا جاتا ہے تو اردو بولنے والے اور اْن کے اپنی زبان کے لیڈر آواز اٹھاتے ہیں، سندھیوں کے لیے سندھی، بلوچوں کے لیے بلوچ، اور پنجابیوں کے لیے پنجابی ویسے ہی نقیب اللہ جو کے ایک پشتون وزیرستان سے تعلق رکھنے والا کراچی سھراب گوٹھ کا شہری تھا اس لیے اپنے پشتون بھائی ہی پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں

آسان لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کے مارنے والے شاید سب ایک پیج پر ہیں مگر مرنے والے الگ الگ پیج پر ہیںہر کسی کے پیج پر ایک زبان کا کالم بنا ہوا ہے، سندھی بولنے والے کے پیج پر لکھا ہوا ہے کے میرا سندھی بھائی کو اگر کچھ ہوا تو میں آواز اْٹھاؤں گا، ویسے ہی پنجابی، بلوچوں، پشتون وغیرہ نے بھی اپنے پیج پر یہی لکھا ہوا ہے،

ویسے ہی مزہبی حلقوں نے اپنے اپنے مزہب کے ماننے والے والوں کا عہد کیا ہوا کے اگر میرے مزہب یا فرقے کے مان نے والے بندے کو کچھ ہوا، جبری گمشدگی، یا کسی طرح بھی اْس کا قتل کیا گیا تو میں اْس کے لیے پورے دل سے آواز اْٹھاوں گا

نقیب کے دوست ہاشم کے مطابق نقیب اللہ فوٹو گرافی کا شوق رکھتا تھا اور اس کو ماڈلنگ کا بہت شوق تھا، ان کے فیس بک پر ان کے کئی سو چاہنے والے موجود ہیں اور ان کا کسی سیاسی مذہبی یا شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں ہے،

نقیب کو اگر پتا ہوتا کے ایسے شوق کراچی کے علاقے ڈیفنس یا کلفٹن کو لوگ رکھا کرتے ہیں نہ کہ سھراب گوٹھ کے لوگ۔کیونکہ سوھراب گوٹھ کے لوگوں پر طالبان ہونے کا باآسانی دعویٰ کیا جاسکتا ہے، مگر ڈیفینس کے ماڈل اور ازاد خیال لوگوں پر نہیں۔

راؤ انوار کے مطابق نقیب کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا گیا ہے، وہی تحریک طالبان جس کے سابق رکن احسان اللہ احسان کو پاکستانی نیوز چینل پر مہمان خصوصی کی دعوت دی گئی تھی، شاید نقیب اللہ بھاری تعداد میں اپنی فورس اور ٹینکر کے ساتھ مقابلے میں آیا تھا اس لیے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا  ۔

To Top