اسلامی قوانین کی رو سے نامحرم مرد سے ملتے وقت ۔۔۔۔ لازمی کرنا چاہیۓ

اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں زندگی کے ہر مسلے کے لیے نہ صرف حل موجود ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر معاملے میں مکمل رہنمائی موجود ہے ۔ آج کل کے دور میں جب زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کا اور مردوں کا اختلاط موجود ہے تو ان حالات میں دین اسلام اس اختلاط کے لیۓ بھی مکمل رہنمائی فرماتا ہے جس پرعمل کر کےمحرم و نامحرم روز مرہ معاملات میں گناہ کبیرہ سے بچ سکتے ہیں

اسلام پانچ ایسی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے جس کے ذریعے انسان عام زندگی ،تعلیمی اداروں اور دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام کرتے ہوۓ مثبت تعلقات قائم کر سکتا ہے

اپنی نظر نیچی رکھیں

صحیح بخاری کی حدیث 6226 میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو قربانی کے دن اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ وہ خوبصورت گورے مرد تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھنے آئی۔ فضل بھی اس عورت کو دیکھنے لگے۔ اس کا حسن و جمال ان کو بھلا معلوم ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو فضل اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر فضل کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ دوسری طرف کر دیا۔

نامحرم کے ساتھ تنہائی سے اجتناب برتو

سنن الترمذی کی حدیث 2165 سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے،

گفتگو کے دوران اپنے لہجے کو سخت رکھو

سورہ احزاب کی آیت 32 میں اگرچہ امہات المومنین کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے مگر علما کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لیۓ ہے ‘اے نبی کی بیویو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو اور دبی زبان سے بات نہ کہو کیونکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرے گا اور بات معقول کہو’۔

نا محرم سے بلا ضرورت روابط سے پرہیز کرنا چاہیۓ

حضرت عائشہ کا شمار ان عورتوں میں ہوتا ہے جو کہ نہ صرف محدث تھیں بلکہ بہت سارے دینی معاملات میں مسلمانوں کی رہنمائی بھی فرماتی تھیں ۔ حضور اکرم کے وصال کے بعد اکثر صحابہ کرام ان کے پاس رہنمائی کے لیۓ آتے تھے اور وہ حجاب کے پیچھے سے ان کے سوالوں کے جواب دیا کرتی تھیں

نامحرم کے ساتھ عزت و احترام اور شرم و حیا سے پیش آئیں

سورت القصص کی آیات 23 تا 25 میں اللہ تعالی نے حضرت موسی کا جو قصہ بیان کیا ہے اس کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر دور میں محرم و نا محرم کے تعلق کے لیۓ واضح حدود متعین کی ہیں

اور جب مدین کے پانی پر پہنچا وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو پانی پلاتے ہوئے پایا، اور ان سے ورے دو عورتوں کو پایا جو اپنے جانور روکے ہوئے کھڑی تھیں، کہا تمہارا کیا حال ہے، بولیں جب تک چرواہے نہیں ہٹ جاتے ہم نہیں پلاتیں، اور ہمارا باپ بوڑھا بڑی عمر کا ہےپھر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف ہٹ کر آیا پھر کہا کہ اے میرے رب تو میری طرف جو اچھی چیز اتارے میں اس کا محتاج ہوںھر ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس شرم سے چلتی ہوئی آئی، کہا میرے باپ نے تمہیں بلایا ہے کہ تمہیں پلائی کی اجرت دے، پھر جب اس کے پاس پہنچا اور اس کو تمام حال بیان کیا، کہا خوف نہ کر، تو اس بے انصاف قوم سے بچ آیا ہے

اللہ تعالی ہم سب کی ہدایت فرماۓ اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ

To Top