‘زنا سے بچنے کے لیۓ دو افراد کے سامنے نکاح کرنا نکاح نہیں بلکہ متعہ ہے ‘ معروف عالم کا ایسا بیان جس نے نکاح کے بارے میں سوال اٹھا دیۓ

نکاح سے مراد اس معاہدہ کی ہے جو کہ مرد اور عورت کے درمیان طے پاتا ہے اور اس معاہدے کی رو سے وہ دونوں ایک ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں اور اپنے نفسانی تقاضوں کی ایک دوسرے کی مدد سے تکمیل کرتے ہیں اس معاہدے کی لازمی شرائط میں اس ایجاب و قبول کا گواہوں کی موجودگ میں کرنا لازمی شرط ہے

اس معاہدے یا نکاح کے بغیر مرد اور عورت کے درمیان ہونے والے جسمانی تعلق کو اسلام کی رو سے حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کو زنا کا نام دیا گیا ہے جس کی سزا سو کوڑے یا سنگسار کر دینا متعین کی گئی ہے

عورت کے لیۓ ایک وقت میں ایک مرد سے نکاح کی شرط بھی اسلام میں لگائی گئی ہے جب کہ ایک مرد کو اس کے جسمانی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ ایک وقت میں چار نکاح تک کرنے کی اجازت بھی قرآن و سنت سے ثابت ہے

شیعہ مسلک کے تحت ایک اور قسم کے نکاح کی اجازت بھی مردوں کو دی گئی ہے جس کو متعہ یا کانٹریکٹ میرج کہتے ہیں جس کی رو سے مرد کچھ خاص شرائط کے ساتھ وقت کی حدود کو طے کرتے ہوۓ بھی کسی عورت کے ساتھ عارضی نکاح کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کر سکتا ہے

اس مدت کی تکمیل کے بعد طلاق دی جا سکتی ہے شیعہ مسلک کے حامل لوگ اس حکم کی توجیہہ کے طور پر سورت النسا کی ایات کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق پہلے سے شرائط طے کر کے نکاح کیا جا سکتا ہے

وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ.(النساء۴: ۲۴)
’’اور ان (محرمات) کے ماسوا عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں، اس طرح کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے ان کے طالب بنو، اُن کو قید نکاح میں لے کر، نہ کہ بدکاری (مادۂ منویہ بہانے) کے طور پر، پس ان میں سے جن سے تم نے تمتع کیا ہو تو ان کو ان کے مہر دو، فریضہ کی حیثیت سے۔ مہر کے ٹھہرانے کے بعد جو تم نے آپس میں راضی نامہ کیا ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

جب کہ اس حوالے سے سنی علما کا موقف قطعی جدا ہے ان کے نزدیک متعہ یا کانٹریکٹ میرج کا حکم اوائل اسلام کے دنوں میں ضرور تھا مگر موجودہ دور میں اس حکم کی تنسیخ ہو چکی ہے اور ایسا نکاح کرنے والا فرد درحقیقت زنا کا مرتکب قرار دیا گیا ہے

اس حوالے سے معروف مفتی طارق مسعود سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا اگر کسی کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ زنا کا مرتکب ہو سکتا ہے تو اس صورتحال میں اگر وہ دو افراد کو گواہ بنا کر ایجاب و قبول کر لے اور اس کے بعد جسمانی تعلق قائم کرے تو کیا یہ نکاح درست تصور کیا جاۓ گا

اس موقعے پر انہوں نے جواب دیا کہ دو افراد کو گواہ بنا کر کیا جانے والا نکاح بھی متعہ ہی تصور کیا جاۓ گا جو کہ زنا کے برابر ہے مفتی صاحب جو کہ دینی علم کے حوالے سے ایک جانی پہچانی شخصیت ہین ان کا یہ کہنا کہ دو افراد کے سامنے کیا گیا نکاح بھی متعہ ہی تصور کیا جاۓ گا تمام مسلمانوں کو ابہام کا شکار کر رہا ہے

کیوں کہ اگر ہم سنت نبوی سے دیکھتے ہیں تو نکاح کی لازمی شرائط میں یہ شامل ہے کہ دو افراد کے سامنے ایجاب و قبول جائز نکاح ہے دوسرے لفظوں میں مفتی صاحب کی اس بات کا یہ مطلب ہے کہ ڈھول باجوں کے بغیر بڑے اہتمام کے بغیر کیا جانے والا نکاح شرعی طور پر زنا ہے ؟؟

اس حوالے سے اگر مفتی صاحب کسی قسم کا قرآنی حوالہ بھی اگر دے دیتے تو اس کو سمجھنے میں آسانی ہو جاتی اور اس بات کے ثبوت مل جاتے کہ دو افراد کی موجودگی میں کیا جانے والا نکاح کس طرح زنا قرار دیا جا سکتا ہے

 

To Top