اسلام کے اندر اپنی نفسانی خواہشات کی حلال طریقے سے تکمیل کے لیۓ نکاح کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور تمام مسلمانوں کے لیۓ اس کے احکامات اور شرائط واضح طور پر بیان کر دی گئی ہیں مگر کچھ مسائل اس حوالے سے ایسے ضرور ہیں جس میں مختلف مکتبہ فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے
ان میں سے ایک متعہ اور دوسرا مسیار ہے عام طور پر سنی مکتبہ فکر کے لوگ متعہ کو حرام قرار دیتے ہیں جب کہ ان کے نزدیک مسیار طریقہ کار ایک جائز اور درست عمل ہے
متعہ کس کو کہتے ہیں
متعہ کی لغوی معنی ہیں فائدہ اٹھانے کی ، عرب میں جہالیت کے زمانے میں جب لوگ اپنے شہر سے باہر جاتے تھے تو وہاں اگر ان کا قیام بہت زیادہ ہوتا تھا تو وہ لوگ عورتوں سے اجورے پر مقرر مدت تک فائدہ لیتے تھے جسے متعہ کہا جاتا ہے۔اہل تشیعہ کے مسلک میں اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے جب کہ اہل سنت کے مکاتب فکر کے علما اس حکم کی تنسیخ کے قائل ہیں
اہل تشیعہ متعہ کے لیۓ جن قرآنی آیات کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں وہ سورۃ النسا کی آیت 24 ہے جس کا ترجمہ ہے کہ
‘اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔
اس کے علاوہ اہل تشیعہ جس حدیث کا اہل سنت کی احادیث میں سے حوالہ دیتے ہیں وہ کچھ یوں ہے
حضرت ابو سعید الخدری نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا بنی مصطلق میں اور عرب کی بڑی بڑی عمدہ عورتین کو ہم نے قید کیا اور ہم کو مدت تک عورتوں سے جدا رہنا پڑا اور خواہش کی کہ ہم نے ان عورتوں کے بدلے میں کفار سے کچھ مال لیں اور ارادہ کیا ہم ان سے نفح بھی اٹھائیں اگر عزل کریں تاکہ حمل نہ ہو پھر ہم نے کہا کہ ہم عزل کرتے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیاں موجود ہیں ہم ان سے پوچھیں کیا بات ہے پھر ہم نے پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تم اگر نہ کرو تو بھی حرج نہیں اور اللہ تعالی جس روح کو پیدا کرنا قیامت تک لکہا ہے وہ تو ضرور پیدا ہوگی۔)صحیح مسلم کتاب النکاح باب حکم عزل)
جب کہ متعہ کے حکم کی تنسیخ کے حوالے سے اس حدیث کا استدراج کرتے ہیں
ابن ابی حاتم نے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں متعہ کی اجازت تھی ایک آدمی شھر میں اتا اس کے پاس کوئی ادمی نہیں ہوتا جو اس کے معاملات و سامان کی حفاظت کرے وہ اتنے عرصے کے لئے ایک عورت سے متعہ جس میں وہ خیال کرلیتا جس سے وہ خیال کرتا وہ اہنے کام سے فارغ ہوجائے گا وہ عورت اس کے معاملات کی حفاظت کرتی وہ اس آیت کو یوں قرآت کرتے فما استمتعتم بہ منھن الی اجل المسمی پھر اسے محصنین غیر مسافحین نے منسوخ کردیا احصان مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جب چاہے رکھے جب چاہے چھوڑے۔
یہاں تھی سے مراد لی گئی ہے کہ اب یہ حکم تنسیخ ہو چکا ہے
مسیار سے کیا مراد ہے
مسیار ایسی شادی کو کہا جاتا ہے جس میں مرد اس قابل نہ ہو کہ وہ لڑکی کے لواحقین کو لڑکی کی تعلیم و تربیت پر کیا گیا خرچ ادا کر سکے ۔ اورمال حیثیت بہت کمزور ہو ۔ وہ کسی ایسی لڑکی سے جس کی عمر ڈھل رہی ہو سے شادی کر کے لڑکی کے ساتھ اسی کے گھر رہتا ہے ۔ اس شادی میں مرد نان و نفقہ کی ذمہ داری سے آزاد ہوتا ہے ۔ اور گھر کے سب اخراجات وغیرہ کی ذمہ داری لڑکی پر ہوتی ہے ۔ لیکن طلاق کا حق مرد کے پاس ہوتا ہے
اس شادی کے حق میں اہل سنت قرآن کی سورۃ النسا کی آیت 4 کو حوالے کےےطور پر استعمال کرتے ہیں جس کے مطابق
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو-
متعہ اور مسیار میں بنیادی فرق
متعہ اور مسیار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ متعہ سے مراد ایسی شادی ہے جس میں وقت کی قید ہوتی ہے جب کہ مسیار میں وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی بلکہ اس میں دیگر شرائط کو شادی سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے