ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا نکاح ، سندھ کی سیاست ایک نۓ دور میں داخل

جامعہ کراچی میں 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نام سے جو پودا الطاف حسین نے لگایا تھا۔ اسی پودے کو سندھ کے سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لۓ اس کا نام مہاجر قومی مومنٹ رکھا گيا تھا۔ ابتدا میں اس جماعت کا مقصد صرف اور صرف ان لوگوں کے حقوق کا تحفظ تھا جو قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آۓ تھے اور ان کو مہاجرین کا نام دیا گیا تھا۔

جماعت کی مقبولیت کو دیکھتے ہوۓ الطاف حسین نے 1997 میں اس جماعت کا نام مہاجر قومی مومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی مومنٹ رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اور اس کا مقصد انہوں نے یہ بتایا کہ وہ پورے پاکستان کے مظلوم لوگوں کے لۓ آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔

گزشتہ کچھ دہائیوں سے متحدہ قومی مومنٹ پر تشدد پسندی کی سیاست کا الزام بار بار لگتا رہا۔  ان الزامات کے تحت اس جماعت کے قائدین پر مختلف مواقعوں پر ایف آئی آرز بھی کٹتی رہیں۔ جس کو وہ انتقامی سیاست سے تعبیر کیا کرتے تھے۔

مگر انہی ایف آئی آر کے سبب گرفتاری کے خوف سے الطاف حسین نے راہ فرار اختیار کی اور لندن جاکر پناہ حاصل کر لی۔ ان کی غیر موجودگی میں ایک کمیٹی، جس کا نام رابطہ کمیٹی تھا پاکستان میں کراچی کا نظم و نسق عزیز آباد کے مقام نائن زیرو سے سنبھالتی رہی۔

اس دوران اس پارٹی کی ایک خاص بات اس کا ڈسپلن اور تنظیم سازی تھی۔ جس کے سبب الطاف حسین نے لندن سے نہ صرف پارٹی سنبھالی بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی کمی نہ آنے دی ۔ مگر پے در پے تشدد کے الزامات کے سبب پارٹی اور اس کے قائدین کی سرگرمیاں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کا سبب بنتی رہیں۔

اسی کے نتیجے میں متحدہ فومی مومنٹ سے علیحدہ ہونے والے مصطفی کمال نے ایک علیحدہ جماعت پی ایس پی بنانے کا اعلان کیا۔ اور دوسری جانب فاروق ستار جو کہ پاکستان میں رابطہ کمیٹی کے سربراہ تھے، نے الطاف حسین سے ان کی پاکستان دشمنی والی تقاریر کے سبب علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اور متحدہ قومی مومنٹ نے لندن قیادت اور اس کے بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔

 

جیسے جیسے 2018 کے الیکشن نزدیک آرہے تھے۔ پی ایس پی اور متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کے قائدین کے درمیان رابطے بڑھتے جا رہے تھے ۔جن کا نتیجہ آٹھ اکتوبر کو کراجی پریس کلب میں پی ایس پی اور متحدہ قومی مومنٹ کی مشترکہ پریس کانفرنس کی صورت میں نکلا۔

اس پریس کانفرنس میں اس امر کا اعلان کیا گیا کہ آج کے دن متحدہ قومی مومنٹ نامی جماعت ،جس کی داغ بیل الطاف حسین نے رکھی تھی ، کے خاتمے کا دن ہے ۔آئندہ الیکشن میں دونوں جماعتیں ایک نۓ نام اور نۓ نشان کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیں گی۔

دونوں جماعتوں کے اس اتحاد کے اعلان کو سیاسی حلقوں میں انتہائی اہم گردانا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ نگار اس اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بزور کروایا جانے والا اتحاد کہہ رہے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کو یہ خدشہ تھا کہ اگر وہ اسی طرح آپس میں لڑتے رہے تو یہ ان کی پارٹیوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا ۔

اس اعلان کے ہوتے ہی آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف کے وطن واپسی کے اعلان کو بھی سیاسی حلقوں کی جانب سے اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق مصطفی کمال ہمیشہ سابق صدر پرویز مشرف کی گڈ بک میں رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا اتحاد بننے جا رہا ہو جس کی قیادت پرویز مشرف کریں۔ اور اندرون سندھ کی بھی کچھ جماعتوں کے اتحاد سے یہ سب ایک گرینڈ الائنس کی صورت میں الیکشن لڑیں ۔

اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ متحدہ قومی مومنٹ کے سینئر رہنما عامر خان اور علی رضا عابدی نے نہ صرف اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا ہے بلکہ علی رضا عابدی نے اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفی دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے ورکر اس نکاح پر کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

 

 

 

To Top