تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے کے بعد مسلم لیگ ن ایک اور بڑی مشکل میں گرفتار

مسلم لیگ ن نے 2013 کے الیکشن میں واضح برتری حاصل کرنے کے بعد حکومت تو بنا لی تھی۔ مگر اس بار حکومت کرنا ان کو بہت دشوار رہا۔ پہلے تو دھاندلی کا الزام لگا کر پاکستان تحریک انصاف میدان میں آگئی۔ اور احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔

 

احتجاجی جلسوں اور دھرنوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو دو سال تک بہت پریشان رکھا اور اس کے بعد پاناما لیکس سامنے آگئيں ۔ جس نے پاکستان تحریک انصاف کی تحریک میں نئی جان ڈال دی ۔ ایک بار پھر جب انہوں نے اسلام آباد کے یلغار کی کوشش کی تو اس بار آرمی چیف کی وجہ سے معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔

سپریم کورٹ نے آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت آخر کار نواز شریف کو نااہل قرار دے کر حکومت چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔ نواز شریف کی نااہلیت کے بعد سیاسی منظر نامے پر ایک ہیجان  کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس موقع پر ایک جانب تو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ سامنے آیا۔

اور دوسری جانب مسلم لیگ ن کی جانب سے الیکشن ریفارمز کا بل بھاری اکثریت سے اسمبلی سے پاس کروالیا گیا۔ابھی حکومتی حلقے اپنی کامیابی کی ٹھیک سے خوشی بھی نہ منا پاۓ تھے کہ یہ بات سامنے آئی کہ اس بل میں سے امیدوار کے لۓ ختم نبوت کے حلف نامے میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے ۔

اس بات کے سامنے آتے ہی پورے ملک میں ایک طوفان سا آگیا ۔ اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اس کی پرزور مذمت کی گئی ۔ جس کے نتیجے میں مجبورا  مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر قانون نے اس غلطی کو نہ صرف سہو یا نادانستہ قرار دیا بلکہ اس ترمیم کو واپس لیتے ہوۓ حلف نامے کو واپس اپنی پہلی شکل میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ۔

سیاسی حلقوں نے تو حکومتی توجیہات کو تسلیم کر لیا ۔مگر مذہبی حلقوں کی جانب سے اس معزرت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوۓ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بعد ان کو سزادینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے جواب میں حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا ۔

اس کمیشن کا کام  اس سارے واقعے کی تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا۔ مگر مذہبی حلقوں کی جانب سے اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کا اعلان کر دیا گیا ۔ان کا مطالبہ تھا کہ وزیر قانون زید حامد کو فوری طور پر بر طرف کیا جاۓ ۔

حکومت کی جانب سے مزاکرات کے کئی ادوار کے باوجود زید حامد کے استعفی کو لے کر کوئی فیصلہ نہ ہو پایا جس پر تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ارکان نے فیض آباد انٹر چینج کے مقام پر دھرنا دے دیا۔جس کے نتیجے میں جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں زندگی مفلوج ہو گئی۔

ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ اس دھرنے کو جلد ازجلد ختم کروانے کے لۓ اقدامات کرے جس پر حکومت نے طاقت کا استعمال کیا مگر اس میں ناکام ہونے کے بعد فوج سے مداخلت کی درخواست کی ۔مگر مسلۓ کی سنگینی کو دیکھتے ہوۓ فوج نے طاقت کے استعمال سے نہ صرف انکار کیا بلکہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان ثالثی بننے کی پیش کش کرتے ہوۓ مظاہرین کے مطالبات کو منظور کرواتے ہوۓ زید حامد کا نہ صرف استعفی دلوا دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں کو پابند کیا کہ وہ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ آنے سے قبل سابق وزیر قانون زید حامد کے خلاف کوئی فتوی جاری نہ کرے گی۔

ن لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے

”قرآن و سنت کی روشنی میں ن لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے ، ناجائز اور گناہ قرار“ علماء کا فتوی

Posted by Pakistan Insider on Monday, November 27, 2017

مذہبی حلقوں کی جانب سے دھرنا ختم ہونے کے باوجود غم و غھہ ختم نہیں ہوا ۔اس حوالے سے فیصل آباد کے علما کی ایک کمیٹی نے یہ فتوی جاری کیا ہے کہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا حرام ہے ۔کیونکہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ناموس رسالت کی توہین کی ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فتوی حکومتی حلقوں کی دشواریوں کا اور کتنا بڑھا سکتا ہے ۔ پے درپے ہونے والے احتجاجوں اور دھرنوں اور نواز شریف کی نااہلیت نے مسلم لیگ ن کے مورال کو عوام میں پہلے ہی بہت گرا دیا ہے اب یہ فتوی سامنے آنے کے بعد آنے والے الیکشن میں ان کے لۓ مزید کتنی دشواریاں پیدا ہوں گی اس کا فیصلہ آنے الا وقت ہی کرۓ گا۔

To Top