کینیڈین ڈاکٹرز روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لۓ‌ کمربستہ

دنیا کے مسلمان اس وقت اک عجب بدحالی کا شکار ہیں ۔ مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں ہو چکا ہے کہ جہاں بھی خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اس خون کی خوشبو مسلمان کے خون کی ہوتی ہے۔ برما ہو ، کشمیر ہو یا فلسطین ، شام کے صحرا ہوں یا افغانستان کی چٹیل چٹانیں جتنا خون ناحق مسلمانوں کا بہا ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔

برماکے مظلوم مسلمانوں کی بدترین حالت دیکھ کر دل خون کے آنسوں رورہاہے ۔گیارہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل روہنگیا مسلمانوں کو اگر اس دنیا میں سب سے مظلوم اقلیت کے طور پر دیکھا جائے تو غلط نہ ہوگا ان میں سے تقریبا 8 لاکھ روہنگیا مسلمان برما کے علاقے اراکان میں رہتے ہیں۔

پڑوسی ممالک بھی بے حسی کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ اسی سبب اراگان کے مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل بدھ مت برمییوں کی جانب سے جاری ہے  نوجوانوں کا قتل عام ہو یا نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری، معصوم مسلمان بچوں اوربچیوں کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال کر بدھ پرستوں کی سفاکیت جاری ہے ۔

ان حالات کے سبب دنیا کے ہر ہر حصے کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ان مظلوم مسلمانوں کی تکلیف اور کرب دنیا کے ہر ہر حصے کے مسلمانوں کو متاثر کر رہے ہیں اسی سبب کینیڈا کی تین ڈاکٹرز نے ا مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد سے وہ ان کیمپوں میں آئیں جہاں پر متاثرین پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے ۔

Canadian Doctor Is Moved to Tears After Her Work in a Rohingya…

This doctor traveled halfway around the world to help Rohingya refugees — and what she saw was heartbreaking

Posted by NowThis on Thursday, November 2, 2017

ڈاکٹر فوزیہ علوی کے مطابق اس کیمپ میں ان کو ایک دس سالہ لڑکی کی آنکھوں کے آنسوؤں نے بہت متاثر کیا ۔ اس لڑکی کی ماں ڈاکٹر فوزیہ کے سامنے اپنی داستان سنا رہی تھی اور وہ لڑکی خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر آنسو بہا رہی تھی ۔اس لڑکی کی ماں کے مطابق جب برمی آرمی نے جب ان کے گھر پر حملہ کیا۔ اس وقت وہ اپنے ایک سالہ بچے کو گود میں لے کر بیٹھی تھی ۔

ظالموں نے اس ایک سالہ بچے کو ماں کی گود سے چھین کر آگ میں ڈال دیا جو بچہ روتا بلکتا رہا اور اس کی ماں اور بہن اس کے لۓ کچھ نہیں کر سکی ۔اس کے بعد اس لڑکی کے باپ کو بھی اس کے سامنے مار دیا گیا ۔ پھر اس بچی اور اس کی ماں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گۓ ۔

جہاں پر ان کو بار بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ ڈاکٹر فوزیہ علوی کا کہنا تھا کہ ان کو وہ بچی دیکھ کر اپنی بیٹی یاد آگئی ۔جس تکلیف اور کرب سے یہ معصوم بچی گزری ہے اس کا احساس ہم سب کو کرنا پڑۓ گا۔ صرف گھر بیٹھ کر دعائیں مانگنے سے ان مظلوموں کی مدد نہیں ہو سکتی۔

ان کی مدد کے لۓ ہمیں عملی طور پر کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر اس علاقے میں انسانوں کی مدد کا بندوبست نہ کیا گیا تو آنے والے دور میں یہ علاقہ انسانی غلاموں ، جنسی تجارت وغیرہ جیسے گھناونے دھندوں کا مرکز بن سکتا ہے ۔

 

To Top