جاوید لطیف کا اسمبلی میں جھگڑے کے بعد مراد سعید پر ایک اور وار، بہنوں کے لیے نازیبا زبان کا استعمال کر کے تمام حدیں پار کردیں

بڑوں کی کہاوت ہے کہ جو بویا جاۓ گا کاٹا بھی وہی جاۓ گا ۔ببول بو کر گلاب کے پھولوں کی امید لگانا بے وقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ہمارے ملک میں سیاست شریفوں کا کھیل نہیں رہا اس میں آنے کے لۓ آپ کو پہلے گندہ ہونا پڑتا ہے ۔اسمبلی میں استعمال ہونے والے ایک دوسرے کے لۓ گھٹیا ریمارکس ہی کم نہ تھے کہ اب معاملہ اسمبلی سے باہر لاونج میں مار پیٹ تک جا پہنچا ہے ۔

ملک کا پڑھا لکھا ہمدرد طبقہ حیرت اور دکھ کے ساتھ ملک کی  اسمبلی میں ہونے والی اس بدنامی کو دکھ کی نظر سے دیکھ ہی رہا ہے ۔  رکن قومی اسمبلی مراد سعید نے  رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کو کیوں مارا ؟

کیا مسلم لیگی ارکان کو یہ لگ رہا ہے کہ کھیل ختم ہونے والا ہے ؟ کیا وہ اب اس حالت پر جا پہنچے ہیں جب کہ اپنی باری پوری ہونے کے بعد بال کو شاٹ لگا کر اتنا دور پھینک دو کہ میرے بعد کوئی بھی نہ کھیل سکے ۔

کیا ملک کی عزت و وقار ان کی باری سے ذیادہ اہمیت نہیں رکھتی ؟ کیا ہم پاکستانیوں کے نصیب میں  ان کی اسمبلی میں ایسے ہی حکمران لکھے ہیں ؟ کیا یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے ؟ کیا ہم اپنی قیادت کے انتخاب میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ؟

کیا سیاست میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بہنو بیٹیوں کے بارے میں کوئي بھی کچھ بھی کہہ لے ؟ کیا بہنیں بیٹیاں سب کی سانجھی نہیں ہوتیں ؟

کیا نواز شریف کا مریم نواز کو اپنی جگہ سیاست میں لے کر آنا ایک غلط فیصلہ تھا ؟ یا پی ٹی آئی والوں کا مریم نواز کے خلاف ایک منظم مہم چلانا اور اس میں تمام اخلاقیات کو فراموش کر دینا اس بات کا آغاذ تھا کہ اب سیاست دانوں کے ہاتھوں کسی کی بہن بیٹی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی ۔

بڑے کہتے ہیں نہ برا کہو بدلے میں نہ  ہرا سنو گالی اسی کو سننی پڑتی ہے جو گالی دیتا ہے ۔اتنا گھٹیا پن تو ہمیں گلی محلوں کی لڑائیوں میں نظر نہیں آتا جس کا مظاہرہ ہمارے پارلیمینٹیرین کر رہے ہیں ۔

اس وقت نواز شریف اور عمران خان کو بڑے ہونے کا ثبوت دینا ہو گا ورنہ معاملہ اس سے بھی بڑھ سکتا ہے اور نتیجے میں جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا ۔نظریات کا ٹکراؤ سیاست کا حسن ہوتا ہے اور اسی سے جمہوریت پھلتی پھولتی ہے ۔

To Top