منیبہ مزاری کی کامیابیوں کے سفر نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا

میں نے پینٹنگ کرنے کے خواب دیکھے اور پھر اپنے خواب پینٹ کۓ ۔یہ جملے ہیں عزم و ہمت کی مثال منیبہ مزاری کے جو کہ ایک پینٹر ، میزبان ، مقرر ،سوشل ورکر، اقوام متحدہ کی صنف خواتین کی پاکستان کے لۓ سفیر اور کئی این جی اوز کی روح رواں ہیں ۔ان کی ہمہ صفت شخصیت ہمارے لۓ عزم و ہمت کی داستان ہے۔

منیبہ مزاری بھی ہر مشرقی گھرانے کی لڑکی کی طرح ایک عام لڑکی تھی ۔جس کے کچھ خواب تھے ۔ وہ ایک آرٹسٹ بننا چاہتی تھی ۔ وہ پینٹنگ کرنے کے خواب دیکھتی تھی ۔اور اپنے خوابوں کو رنگوں سے کینوس پر منتقل کرنا چاہتی تھی ۔ مگر اٹھارہ سال کی عمر میں اس کے لۓ آنے والے رشتے کو اس کے والدین نے نہ صرف قبول کر لیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی سے بھی یہی امید رکھی کہ منیبہ مزاری ان کے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کریں گی ۔

منیبہ نے خوابوں کی قیمت پر شادی کر لی

ہر مشرقی بیٹی کی طرح اپنے والدین کے اس یقین کو قائم رکھا اور اپنے خوابوں کی قیمت پر شادی کر لی ۔ شادی کے دو سال اس کے لۓ کوئی بہت خوبصورت یاد بن کر نہیں گزرے ۔اور اگر وہ حادثہ نہ ہوتا جس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تو شاید وہ ساری زندگی ایسے ہی گزار دیتیں ۔

ایک دن جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ گاڑی میں کہیں جا رہی تھیں تو ان کے شوہر کی آنکھ لگنے کے سبب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا اور ان کی گاڑی گڑھے میں جا گری ۔ان کے شوہر نے تو خود کو کسی نہ کسی طرح گاڑی سے باہر نکال لیا مگر وہ بری طرح گاڑی میں پھنس گئیں ۔

اس حادثے کے نتیجے میں ان کی کندھے کی ہڈی ،گردن کی ہڈی ،کلائی کی ہڈی بری طرح ٹوٹ گئی ۔مگر سب سے بڑا نقصان ان کی ریڑھ کی ہڈی کا ہوا جو ان کو گاڑی سے نکالنے کے دوران اس بری طرح متاثر ہوئی کہ اس کے لۓ ان کو ڈھائی ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا ۔

اس دوران ان کو پتہ چلا کہ وہ اب ہمیشہ کے لۓ معذور ہو گئی ہیں ،کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکیں گی ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکیں گی ۔منیبہ مزاری کے مطابق اس خبر نے کسی بھی عام عورت کی طرح ان کو توڑ کر رکھ دیا ۔ انہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اس زندگی سے تو نہ ہونا بہتر ہے ۔

منیبہ مزاری کا بڑا فیصلہ

پھر ایک دن منیبہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو نۓ سرے سے شروع کرے گی اس موقع پر سب سے بڑا فیصلہ اس نے جو کیا وہ اپنے شوہر کو آزاد کرنے کا تھا اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی اور پینٹنگ شروع کر دی ۔اس نے فیصلہ کیا کہ کیا ہو گیا جو وہ ایک بچے کی ماں نہیں بن سکتی ۔دنیا میں بہت سارے ایسے بچے بھی ہیں جن کے ماں باپ نہیں ہیں ۔اس نے بچے کو گود لینے کا فیصلہ کیا اور دو دن کے ایک بچے کو یتیم خانے سے گود لے لیا ۔اس بچے کو ماں کا پیار دینا شروع کر دیا ۔

اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن میں ایک پروگرام کی میزبانی کی اور دنیا کی پہلی ٹی وی ہوسٹ بن گئیں جو کہ وہیل چئیر پر بیٹھ کر میزبانی کرتی تھیں ۔ان کا شمار دنیا کے ان چند موٹی ویشنل مقرروں میں ہونے لگا جو اپنے عزم و حوصلے کے ذریعے مایوس لوگوں میں امید کی کرنیں بانٹتے ہیں ۔

انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے محروم لوگوں جن میں ہیجڑے ، سڑکوں پر پھرنے والے لاوارث بچے شامل ہیں کی بھلائی اور بہبود کے لۓ مختلف این جی اوز کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ان کی ان خدمات کے اعتراف میں اقوام متحدہ نے ان کا تقرر پاکستان کی خواتین کے حقوق کے سفیر کے طور پر کیا ۔

اب سرحد بک بورڈ نے بھی ان کی ان خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کی عزم و حوصلوں کی اس داستان کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنا دیا ہے ۔منیبہ مزاری جیسے لوگ معاشرے کے لۓ نہ صرف ایک مثال ہیں ۔بلکہ ہم سب کے لۓ قابل تقلید بھی ہیں

To Top