اس بچے کا قرآن پاک سے بھاگنے کی وجہ جاننے پر آپ بھی حیران ہوجائیں گے

خوبصورت سنہری شیروانی اور سر پر سفید ٹوپی پہنے وہ شہزادہ ہی تو لگ رہا تھا ۔ ہر آتے جاتے کو بے ساختہ اس پر پیار آرہا تھا ،وہ بھی کچھ شرماۓ اور کچھ جھینپے ہوۓ انداز میں بار بار اپنے گلے میں پڑی ہوئی مالا کے پھولوں سے کھیلنا شروع کر دیتا تھا۔ آج اس کی چوتھی سالگرہ تھی اور ساتھ ساتھ اس کی تقریب بسم اللہ بھی تھی۔ چونکہ اس کی دادی اور گھر والے بہت مذھبی رجحان کے حامل لوگ تھے لہذا بہتر یہی سمجھا گیا کہ سالگرہ کے بجاۓ بسم اللہ کی تقریب کا اہتمام کیا جاۓ اور ساتھ ساتھ بچے کے تعلیمی سلسلے کا آغاز بھی ہو جاۓ۔

بہت منتوں مرادوں کے بعد وہ پیدا ہوا تھا پھر اللہ نے اس کو صورت بھی ایسی دل موہ لینے والی دی تھی کہ جو دیکھتا گرویدہ ہو جاتا، گوری رنگت، سنہرے بال اور بھوری آنکھیں اس کو دوسرے تمام بچوں میں ممتاز کرتی تھیں ۔دادی جان کی دیرینہ خواہش کے احترام میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ فرآن حفظ کرے گا۔

اس کی بسم اللہ کے بعد باضابطہ طور پر اسے مولوی صاحب کے حوالے کر دیا گیا ۔ مولوی صاحب درمیانی عمر کے باریش انسان تھے۔بسم اللہ کے موقعے پر بہت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ مولوی صاحب نے شیڈول بتایا کہ صبح سات بجے سے لے کر شام چار بجے تک مسجد کے مدرسے ہی میں تعلیم دی جاۓ گی، کم عمری کودیکھتے ہوۓ شروع کے کچھ دن اوقات میں نرمی برتی جاۓ گی ۔

اور اس طرح زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ شروع میں روتے دھوتے آنا جانا رہا اپنی شکل صورت کے سبب خاص توجہ ملتی رہی ۔ سات سال کی عمر میں مدرسے میں ایک نئے مولوی صاحب نے چارج سنبھالا ۔ ان کا پڑھانے کا انداز اسےبہت عجیب لگا ۔وہ پڑھاتے ہوۓ بار بار اس کے جسم کے نازک حصوں کو چھوتے جس سے اس کی روح تک جھنجھنا اٹھتی اور اس کا دھیان اس کے سبق سے ہٹ کر کہیں اور جا پہنچتا ۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ صحیح ہے یا غلط مگر ان کا اس طرح چھونا اسے اچھا نہیں لگتا تھا ۔ نتیجے کے طور پر اس نے مدرسے کی چھٹیاں کرنی شروع کر دیں، کبھی پیٹ درد اور کبھی سر درد کا بہانہ بنا کر، مگر آخرکار تو جانا پڑتا اور وہ جب بھی جاتا اسے وہ سب بھی بھگتنا پڑتا۔

اس سب ذہنی خلفشار کے سبب اس کو یاد کیا ہوا سبق بھی بھولنے لگا۔ مدرسہ اس کے لئے ایک خوفناک بھوت کی مانند ہو گیا ۔وہاں جاتے ہی اس کو خوف کے مارے بخار چڑھ جاتا جس کو اس کے گھر والوں نے بری نظر سے تعبیر کیا اور زبردستی بھیجنا شروع کر دیا۔

اس کے گھر والوں کی نظر میں نئے مولوی صاحب ایک فرشتہ تھے جو ان کے بچے کو خصوصی توجہ سے نواز رہے تھے ۔ وہ سب کو سب کچھ چیخ چیخ کر بتانا چاہتا تھا مگر اس کے لفظ گونگے ہو جاتے تھے ۔ ایک دن تو وہ فیصلہ ہو گیا جس نے اس کی زندگی بدل ڈالی ۔ مولوی صاحب نے اس کی کمزور تعلیمی حالت دیکھتے ہوۓ تنہائی میں مغرب کے بعد بھی بلانا شروع کر دیا جس پر اس کے ماں باپ بہت خوش تھے۔

اب تو مولوی صاحب کو کھلی چھوٹ مل گئی،  ایک دن تو حد ہو گئی انہوں نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوایا اور دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔ اور پھر اس کے کپڑے اتروانا شروع کر دئے جب اس نے انکار کیا تو اس کو ڈانٹتے ہوۓ کہا کہ تمہیں یاد نہیں تمھارے باپ نے کیا کہا تھا کہ مولوی صاحب کی ہر بات ماننا۔

اس دن اس شیطان صفت مولوی کے ہاتھوں اس کی معصومیت کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ گھر واپسی پر وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اب اس کو قرآن نہیں پڑھنا۔

To Top