میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا پھر مجھے بہشت کیوں نہیں مل رہی؟

وہ کچی سی دیواروں والا ایک کمرہ تھا ۔ جس کے دروازے کے نام پر ایک پردہ لٹک رہا تھا ۔ فرش پر ایک بوسیدہ قالین جو پتہ نہیں کتنے ماہ و سال سے وہاں بچھا تھا کہ اپنا رنگ و روپ کھو چکا تھا ۔ اب وہ اس مٹیالے فرش ہی کا حصہ لگ رہا تھا ۔ میرے ساتھ تین اور لوگ بھی اس کمرے میں موجود تھے ۔

ایک تو میرے استادمحترم تھے جنہوں نے مجھے دین سے آشنا کیا تھا ۔ مجھے حق اور سچ سے آگاہ کیا ۔مجھے بہشت میں لے جانے کا وعدہ کیا  میری بے راہ روی کا خاتمہ کیا اور دوسرا فرد میرے لۓ اجنبی تھا ۔

4

میرے استاد نے میرا تعارف اس شخص سے یہ کہہ کر کروایا کہ یہ میرا وہ ہونہارشاگرد ہے جو میرے ادھورے کاموں کو پورا کرے گا اور آخرت میں میری بخشش کا سبب بنے گا ۔ان کی اس بات نے میرے ارادوں کو اور مضبوط کر دیا کہ اب مجھے وہ کرنا ہے جو میرے استاد محترم نہ کر پاۓ ۔ میری مسیں ابھی بھیگنی ہی شروع ہوئی تھیں ۔اپنے دل میں بہت کچھ کرنے کے جذبے کو بھی اپنے ساتھ جوان ہوتے ہوۓ محسوس کر رہا تھا ۔

جذبوں کی جگہ جنون پلتے تھے میرے دل میں اور ہوش کی جگہ اس دماغ میں کچھ کر گزرنے کا جوش تھا ۔اسی چیز کو دیکھتے ہوۓ میرۓ استاد محترم نے میرا چناؤ باقی تمام پچاس طالب علموں میں سے کیا تھا ۔مجھے یہ اپنے لۓ ایک بہت بڑا اعزاز لگ رہا تھا ۔میرے استاد محترم نے مجھے بتایا کہ یہ ہمارے کمانڈر ہیں اور اب یہ مجھے تربیت دیں گے اور بہشت میں جانے کا راستہ بتائیں گے مگر اس سے پہلے میرا انٹرویو لیا جاۓ گا ۔

ان سے گفتگو کر کے مجھے حیرت ہوئی کہ وہ میرے بارے میں مجھ سے ذیادہ جانتے تھے ۔ میرے گھر کی غربت ،بھوک پیاس ،میرے بڑے بھائیوں کی بے روزگاری ، میرے والد کی بیماری ،میری بہنوں کی ڈھلتی ہوئی عمر اور جہیز کا انتظام نہ ہونا کچھ بھی ان سے پوشیدہ نہ تھا ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ بہت مسبب الاسباب ہے اور ان کے ذریعے وہ میرے گھر کے تمام مسائل کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے بدلے میں مجھے بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لۓ کچھ کام کرنا پڑے گا۔

15

اتنے عرصے میں میرے استاد محترم اتنا تو مجھے سکھا ہی چکے تھے کہ دین کی سربلندی کے لۓ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا ۔انٹرویو میں کامیاب ہونے کے بعد میری تربیت کا عمل شروع ہوا ۔ قرآن و حدیث کے لیکچر کے ساتھ ساتھ عملی ٹریننگ بھی دی گئی ۔ قرآنی حوالے میری آنکھیں کھولنے کے لۓ کافی تھے مجھے لگنے لگا کہ ہم  سب مسلمان گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ فضول رسم و رواج اور بدعات نے ہمارے دین کی شکل کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔

تربیت مکمل ہونے کے بعد مجھے واپس گھر بھیج دیا گیا اور کہا گیا کہ وقت آںے پر مجھے بلا لیا جاۓ گا ۔گھر آیا تو خوشی ہوئی کہ گھر کے حالات کافی بہتر ہو چکے ہیں ۔ بھائی کی نوکری کسی کرم فرما کی بدولت لگ چکی ہے اور بہنوں کی شادی کا بھی انتظام ہو چکا ہے ابو کی صحت بھی اچھے علاج اور غذا کے سبب کافی بہتر ہوئی تب مجھے کمانڈر کے اللہ بہت مسسب الاسباب ہو نے کا مطلب سمجھ آیا ۔

17

اور اس کے بعد ایک دن مجھے وہ بلاوہ ملا جس کا میں بے صبری سے انتظار کر رہا تھا ۔ مجھے حکم ملا کہ مزار مذہب کی عمارتوں میں دراڑ ڈالنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں اس لۓ ان کا خاتمہ ضروری ہے اور دین کی اس عظیم خدمت کے سبب میرا نام بہشت کے سب سے اونچے درجے میں لکھا جاۓ گا ۔ میں بہت خوش تھا کہ جس بہشت کے لۓ لوگ ساری عمر ٹکریں مارتے رہتے ہیں اس کا سب سے اونچا درجہ مجھے اتنی آسانی سے مل رہا ہے ۔

میں نے اس دن نہا دھو کر کپڑے پہنے اور جنت کی چابی وہ جیکٹ بھی پہن لی جس نے میرے لۓ جنت کا دروازہ کھولنا تھا ۔میرے ساتھی نے مجھے مزار کے باہر چھوڑ دیا ۔ میں لوگوں سے بچتا بچاتا اس رش والی جگہ پہنچ گیا جہاں پر میری نظر میں دین کے نام کو رسوا کرنے والے موجود تھے ۔ ان کا جسم جب میرے جسم کے ساتھ مس ہوتا تو مجھے کراہیت ہو رہی تھی ۔میری پاکی کو ان کی ناپاکی خراب کر رہی تھی اور پھر میں نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ۔

5

میرا سر میرے جسم سے دور جا گرا ۔ میرے باقی وجود کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہو گۓ مگر مجھے خوشی تھی کہ میں نے اپنے نام جنت کروالی ہے۔ میں اس بات کا منتظر تھا کہ حوریں آئیں مجھے اپنی بانہوں میں‎ جھولا جھلائیں ۔ میرے لب سوکھ رہے تھے مجھے جنت کی شرابوں کو پینا تھا ۔

مگر میرا یہ انتظار بڑھتا جارہا تھا ۔ میرے سامنے سے وہ سب لوگ گزر گزر کر جا رہے تھے جن کو میں نے جہنمی سمجھ کر مار ڈالا تھا ۔ مگر بہترین لباس میں ملبوس وہ سب خوش و خرم پتہ نہیں کس منزل کی جانب رواں دواں تھے ۔

میں اپنے کٹے پھٹے وجود کے ساتھ ان سب کو پکار کر روک دینا چاہتا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں ۔جنت تو میرا انتظار کر رہی ہے ۔میرے ساتھیوں نے تو یہ بتایا تھا کہ جن لوگوں کو میں ماروں گا ان کا ٹھکانہ جہنم اور میرا انعام جنت ہو گا ۔اب جب میں جنت کا منتظر ہوں تو جنت مجھے کیوں نہیں مل رہی ۔

To Top