میرے سسر نے مجھے گلے سے پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور پھر ۔۔۔۔۔۔ اٹک کی مہرین بی بی کی فریاد جو سب کے رونگٹھے کھڑے کر دے

حوا کی بیٹی اس معاشرے میں مردوں کی جانب سے جس قسم کے ظلم کا شکار ہوتی ہے اس کے لیۓ اگرچہ قوانین تو بہت بناۓ جاتے ہیں مگر چونکہ ان قوانین کا نفاذ بھی مردوں کی جانب سے کیا جاتا ہے اس سبب اکثر ان سب قوانین کے باوجود ایسے ظلم معاشرے میں ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں سن کر انسان کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ایسا ہی کچھ اٹک کی رہائشی مہرین بیبی کے ساتھ بھی ہوا

مہرین بی بی کی ایک ویڈيو حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں مہرین بی بی نامی ایک خاتون جس کے چہرے پر زخموں کے نشان تھے اس کی ایک آنکھ بری طرح زخمی تھی اس کے جسم پر ہر جگہ تشدد کے نشانات تھے اس کا یہ کہنا تھا کہ اس کے سسر فیض یاب جو کہ ایک صحافی ہیں  نے اپنے بھائی ، اس کے بیٹوں اور اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر مہرین بی بی کو تشدد کا نشانہ بنایا

مہرین بی بی کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے سسر نے اس کی شادی پر ملنے والا سارا زیور اپنے قبضے میں کر لیا اور اب ان کا مطالبہ ہے کہ میں وہ جائیداد بھی بیچ دوں جو کہ میرے والد نے مجھے دی ہے جب میں نے اس سے انکار کیا تو انہوں نے مجھے گریبان سے پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور میری قمیض پھاڑ ڈالی

اس کے بعد انہوں نے مجھے اتنی بری طرح مارا پیٹا کہ میری ایک آنکھ بھی ضائع ہوگئی  مہرین بی بی کے مطابق میرے سسر ایک بدنام زمانہ صحافی ہیں جو لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں انہوں نے مجھے اور میرے بھائیوں کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر میرے بھائیوں نے میری مدد کی تو وہ ان کے خلاف بھی جھوٹے مقدمات قائم کر کے ان کو جیل میں ڈلوا دیں گے

اس خوف سے مہرین بی بی کے بھائی بھی ان کی مدد سے کترا رہے ہے اور علاقے کی پولیس جس نے ایف آئی آر تو کاٹ دی ہے مگر مہرین بی بی کے سسر کے اثر وسوخ کے سبب ان کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی سے کترا رہے ہیں

آخر کار مہرین بی بی نے خواتین کے حقوق کی تنظیم سے رابطہ کیا جن کی توسط سے یہ ویڈيو سوشل میڈيا پر چل رہی ہے مہرین بی بی نے وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس سے یہ اپیل کی ہے کہ ان کو انصاف دلوایا جاۓ اور ان کے سسر کے ظلم سے نجات دلوائی جاۓ

پاکستانی قانون کے مطابق خواتین کے اوپر ہاتھ اٹھانا ایک سنگین جرم ہے مگر اس جرم میں سزا ملنے کا تناسب بے انتہا کم ہے کمزور عورت کو مارنے پیٹنے کے بعد اس کے اوپر مختلف طریقوں سے دباؤ دال کر اس سے شکایت واپس دلوا دی جاتی ہے یہی سبب ہے کہ زیادہ تر خواتین اس تششد کے بعد بھی خاموشی اختیار کر لیتی ہیں

اسی وجہ سے مہرین جیسی عورتوں کی مدد کرنا اور اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب کا ایک مشترکہ فریضہ ہے

To Top