دنیا بھر کی عورتوں کی آواز ‘می ٹو’ تحریک نے عورتوں کو آج تک کیا دیا؟ جانئیے

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

“می ٹو” مہم  کا باقاعدہ آغاز 2006 میں  “تارانا برک” نے کیا جو کہ افریکن امریکن سماجی کارکن تھی ۔ اس کا مقصد خواتین کے خلاف جنسی ہراسیت و تشدد جیسے مظالم کی نشاندہی کرنا تھا جن کا سامنا خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے یہ ٹویٹ  13 سال کی بچی  سے متاثر ہوکر کی  جو کہ جنسی زیادتی کا شکار تھی ۔ تاہم اس مہم کو دام عروج “ایسا ملانو” سے ملا۔

یہ  امریکن اداکارہ، پروڈیوسر ، سنگر ہے۔ ٹویٹ کے بیس منٹ میں ہی تقریبا دس ہزار لائک اور کمنٹ ہوچکے تھے۔  ٹویٹ کا جواب دینے والوں میں ہالی وڈ کے مشہور ترین اداکارائیں بھی شامل ہے۔  اس  سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خواتین کی کل آبادی کا تیسرا حصہ کسی نہ کسی طرح جنسی زیادتی کا شکار ہے۔

امریکہ جیسے باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرے میں 54٪ خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہے اور ا ن میں سے 95٪ خواتین کو یقین ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی اقدام نہیں کیا جاتا۔  اتنی بڑی تعداد میں متاثر ہ خواتین کو انصاف دینے کی غرض سے ایک  تحریک “ٹائمز آپ” کے نام سے یکم جنوری 2018 میں شروع ہوئی۔  اس کو 20 ملین ڈالر سے قائم کیا گیا اور تقریبا 200 وکیل رفاحی بنیادوں پر اپنی سروسز فراہم کرنے کے  لئے بھی موجود ہے۔

” ایسا ملانو” کا کہنا ہے کہ “می ٹو” کے ذریعے حاصل کئے گئے اعداد و شمار سے اس بات کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ معاشرے میں خواتین کے ساتھ کس حد تک امتیازی سلوک کیا جارہا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس “ٹائمز آپ” کو اس وقت تک کامیاب نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ مردوں کی ایک اچھی تعداد خواتین کے ساتھ کھڑی نہ ہو۔

“می ٹو” کی تحریک میں ترتیب کے حوالے سے جن ممالک کی خواتین نے سب سے زیادہ ٹویٹ کی، ان میں امریکہ، انڈیا، فرانس، چین، جاپان اور اٹلی کی خواتین شامل ہے۔

To Top