معصوم بچیوں سے ہونے والی پے درپے جنسی زیادتیوں کے واقعات کا سبب جانیۓ

معاشرے کے اندر پے درپے بچوں کے ساتھ ہوتے جنسی زیادتی کے واقعات اور اس کے ردعمل کے طور پر من حیث القوم ہماری بے حسی نے ہر ذی شعور انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے. اس زیادتی اور بدترین گںاہ کا مرتکب ہونے والا کوئی اور نہیں آپ اور میرے جیسے انسان ہی ہوتے ہیں ۔جو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لۓ کسی بھی ہنستی مسکراتی کلی کو کچل ڈالتے ہیں ۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک معصوم بچی کی لاش کی تصویریں گردش کر رہی ہیں ۔جھاڑیوں میں پڑی اس معصوم بچی کی لاش کو دو وحشی  انسانوں نے پہلے تو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا ۔پھراس خوف کے سبب کہ یہ بچی شناخت نہ کر لے اس کو موت کی گھاٹ اتار کر جھاڑیوں میں پھینک کر فرار ہو گۓ ۔

معصوم اور کمسن بچوں کے ساتھ ہونے والا یہ زیادتی کا پہلا واقعہ نہیں ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے کمزور عدالتی نظام کے سبب اس زیادتی کا ارتکاب کرنے والے اس امر سے واقف ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت طاقت ، دھونس یا دباؤ کے ذریعے اس بچے کے والدین سے اپنا جرم معاف کروالیں گے ۔

 

جرم معاف کروانے کے بعد ہماری عدالتیں ان وحشی درندوں کو ایک بار پھر آزاد چھوڑ دیتی ہیں تاکہ وہ پھر کسی معصوم کو نشانہ بنا سکیں ۔ ماہرین نفسیات کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نفسیاتی طور پر بظاہر متوازن شخصیت کے مالک  ہوتے ہیں۔مگر اندرونی طور پر انتہائی بزدل اور بند فطرت کے حامل ہوتے ہیں ۔

ان واقعات کے مرتکب افراد کے کردار پر اگر نظر ڈالی جاۓ تو یہ بدترین حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس میں ملوث افراد معاشرے کے باعزت ترین افراد ہوتے ہیں ۔امام مسجد ،استاد ،بھائی کزن انکل غرض ہر وہ فرد جن پر والدین خود سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں وہی اس اعتماد کو اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لیۓ پار پار کر ڈالتے ہیں ۔

موجودہ دور میں جب کہ فحاشی کے ذرائع اسمارٹ فون کی صورت میں ہر فرد کے ہاتھوں میں موجود ہیں وہ کسی کے بھی جزبات کو اس حد تک برانگیختہ کر ڈالتے ہیں کہ وہ انسان سے حیوان کا لبادہ اوڑھ کر وحشت اور درندگی کا ایسا کھیل کھیل ڈالتے ہیں جو کہ دوسرے کی زندگی کو برباد کرنے کا موجب بن جاتی ہیں ۔

اس وحشت و درندگی کے کھیل کے خاتمے کے لۓ یہ ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان درندوں کو بدترین سزائیں دے کر کیفر کردار تک پہنچائیں ۔تاکہ ایسے جرم کو کرنے سے قبل انسان دوسرے کی سزا کو دیکھ کر اپنے شہوانی جذبات پر روک لگا سکے۔

To Top