افسانہ “کالی شلوار” – سعادت حسن منٹو (حصہ دوم)

محرم کا مہینہ سر پر آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اُس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔

انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہوگیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پرجب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو اٹھ کر باہر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔

سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہوگئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کرکے سطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کوبھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہوگیا تھا۔ سلطانہ نے غورسے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا لباس پہن رکھا ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اُسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا، کدھر سے آؤں، سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر پھر بڑی پُھرتی سے اوپر چلا آیا۔

سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا۔ ’’آپ اوپر آتے ڈر رہے تھے۔‘‘ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔’’ تمہیں کیسے معلوم ہُوا۔۔۔۔۔۔ ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟‘‘ اس پر سلطانہ نے کہا۔ ’’یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔‘‘ وہ یہ سُن کر پھر مسکرایا۔’’ تمہیں غلط فہمی ہُوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہُوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ یہ کہہ اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا۔’’ آپ جارہے ہیں؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیا۔’’ نہیں، میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔‘‘

سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کرکے دکھا دیے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اُسی کمرے میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تو اس آدمی نے کہا۔’’ میرا نام شنکر ہے۔‘‘

سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہورہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اُٹھا ہوا تھا۔

شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کے بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا۔’’فرمائیے۔۔۔۔۔۔‘‘

شنکر بیٹھا تھا، یہ سُن کر لیٹ گیا۔’’ میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔‘‘ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔’’ میں سمجھا، لو اب مجھ سے سُنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دیکر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا ہی پڑتی ہے۔‘‘

سلطانہ یہ سُن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔

’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘

شنکر نے جواب دیا۔’’ یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ تم کیا کرتی ہو؟‘‘

’’ میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘

’’میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘

سلطانہ نے بھنا کر کہا۔’’ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔‘‘

شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔’’ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہوگی۔‘‘

’’جھک مارتی ہوں۔‘‘

’’ میں بھی جھک مارتا ہوں۔‘‘

’’ تو آؤ دونوں جھک ماریں۔‘‘

’’ میں حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے لیے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘

’’ ہوش کی دوا کرو۔۔۔۔۔۔ یہ لنگر خانہ نہیں۔‘‘

’’ اور میں بھی والنٹیر نہیں ہوں۔‘‘

سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا۔’’ یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں۔‘‘

شنکر نے جواب دیا۔ ’’اُلو کے پٹھے۔‘‘

’’ میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔‘‘

’’ مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جارہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔‘‘

یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔

اس پر سلطانہ نے کہا۔’’ تم ہندو ہو، اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اُڑاتے ہو۔‘‘

شنکر مسکرایا۔’’ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہُوا کرتے۔ پنڈت مالویہ اور مسٹر جناح اگر یہاں آئیں تو وہ بھی شریف آدمی بن جائیں۔‘‘

’’جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ بولو رہو گے؟‘‘

’’ اسی شرط پر جو پہلے بتا چکا ہُوں۔‘‘

سلطانہ اُٹھ کھڑی ہُوئی۔’’ تو جاؤ رستہ پکڑو۔‘‘

شنکر آرام سے اُٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔’’ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہُوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلا لینا۔۔۔۔۔۔ میں بہت کام کا آدمی ہوں۔‘‘

شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اُس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دیکر باہر نکال دیا ہوتا مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی،اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔

شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اُس سے پوچھا۔’’ تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘

خدا بخش تھک کر چُور چُور ہورہا تھا، کہنے لگا۔’’ پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہُوئے ہیں، انہی کے پاس ہر روز جاتا ہُوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔۔۔‘‘

’’ کچھ انھوں نے تم سے کہا؟‘‘

’’ نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہُوئے۔۔۔ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کررہا ہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘

سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا، خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔’’ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔۔۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں، نہ کہیں جاسکتی ہوں نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے، کچھ تم نے اسکی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں، گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بِک گئیں، اب تم ہی بتاؤ کیا ہوگا؟۔۔۔ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کردو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔‘‘

خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا۔’’ پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے اب ایسی دُکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوسکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی، پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے، کیا پتا ہے کہ کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم۔۔۔۔۔۔‘‘

سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔’’ تم خدا کے لیے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ مارو پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لادو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیض پڑی ہے، اس کو میں کالا رنگوالوں گی۔ سفید نینوں کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے، وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا، یہ بھی قیض کیساتھ ہی کالا رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے، سووہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو۔۔۔۔۔۔ دیکھو تمہیں میری جان کی قسم کسی نہ کسی طرح ضرور لادو۔۔۔۔۔۔ میری بھتی کھاؤ اگر نہ لاؤ۔‘‘

خدا بخش اُٹھ بیٹھا۔’’ اب تم خواہ مخواہ زور دیئے چلی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔ میں کہاں سے لاؤں گا۔۔۔۔۔۔ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس پیسہ نہیں۔‘‘

’’ کچھ بھی کرو مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لادو۔‘‘

’’ دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔‘‘

’’ لیکن تم کچھ نہیں کرو گے۔۔۔۔۔۔ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کرسکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنہ گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پرکتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟‘‘

’’اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر خدا بخش اُٹھا۔’’ لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ، میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔‘‘

ہوٹل سے کھانا آیا دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔ اِدھر اُدھر کمروں میں ٹہلتی رہی، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینوں کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہُوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی، جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہُوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہُوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہوگئی تھی۔ بتیاں روشن ہورہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہوگئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہُوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصہ سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔

جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہُوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے ایسے ہی بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کردیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اسکا اپنا گھر ہے، چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس سے کہا۔’’ تم مجھے سو دفعہ بُلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہُوا کرتا۔‘‘

سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہوگئی، کہنے لگی۔’’ نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔‘‘

شنکر اس پر مسکرا دیا۔’’ تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔‘‘

’’کیسی شرطیں؟‘‘ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔’’ کیا نکاح کررہے ہو مجھ سے؟‘‘

’’نکاح اور شادی کیسی؟۔۔۔۔۔۔ نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں۔۔۔۔۔۔ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔‘‘

’’بولو کیا بات کروں؟‘‘

’’تم عورت ہو۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دوکانداری ہی دوکانداری نہیں، اور کچھ بھی ہے۔‘‘

سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کرچکی تھی۔ کہنے لگی۔’’ صاف صاف کہو، تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔‘‘

’’ جو دوسرے چاہتے ہیں۔‘‘ شنکر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔‘‘

’’ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ان میں اور مجھ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔‘‘

سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی پھر کہا۔’’ میں سمجھ گئی ہوں۔‘‘

’’تو کہو، کیا ارادہ ہے۔‘‘

’’ تم جیتے، میں ہاری۔ پر میں کہتی ہُوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہوگی۔‘‘

’’تم غلط کہتی ہو۔۔۔۔۔۔ اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائینگی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کرسکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو۔۔۔۔۔۔ تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟‘‘

’’سلطانہ ہی ہے۔‘‘

شنکر اُٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔’’میرا نام شکر ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نام بھی عجب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں، چلو آؤ اندر چلیں۔‘‘

شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے، نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔’’ شنکر میری ایک بات مانو گے؟‘‘

شنکر نے جواباً کہا۔’’ پہلے بات بتاؤ۔‘‘

سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی۔’’تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں مگر۔‘‘

’’کہو کہو۔۔۔ رُک کیوں گئی ہو۔‘‘

سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا۔ ’’بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سُن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دیدیا ہے۔‘‘

شنکر نے یہ سن کرکہا۔ ’’ تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔‘‘

سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔’’ نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔‘‘

شنکر مسکرایا۔ ’’میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے، بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس اب خوش ہو گئیں۔‘‘ سلطانہ کے بُندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا۔’’ کیا یہ بُندے تم مجھے دے سکتی ہو؟‘‘

سلطانہ نے ہنس کر کہا۔’’ تم انھیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بُندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔‘‘

اس پر شنکر نے کہا۔’’ میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی، بولو، دیتی ہو۔‘‘

’’لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیے۔ اس کے بعد افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔

سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا۔’’ ساٹن کی کالی شلوار ہے ۔۔۔۔۔۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو۔۔۔۔۔۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘

شنکر شلوار دے کر چلا گیا اورکوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہُوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔

سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی ایسی ہی جیسی کہ وہ انوری کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہُوئی۔ بندوں اور اُس سودے کا جو افسوس اسے ہُوا تھا اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔

دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگی ہوئی قمیض اور دوپٹہ لے کر آئی۔ تینوں کالے کپڑے اس نے جب پہن لیے تو دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو انوری اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہُوا معلوم ہوتا ہے، پر یہ شلوار نئی ہے ۔۔۔۔۔۔ کب بنوائی؟‘‘

سلطانہ نے جواب دیا۔ ’’آج ہی درزی لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں انوری کے کانوں پر پڑیں۔ ’’یہ بُندے تم نے کہاں سے لیے؟‘‘

انوری نے جواب دیا۔’’ آج ہی منگوائے ہیں۔‘‘

اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر تک خاموش رہنا پڑا۔

To Top