میں پاکستان ہوں اور مجھے آپ کی ضرورت ہے

سعد اور حماد کو آج اسکول سے گھر جانے کی بہت جلدی تھی۔ 14 اگست میں ابھی دو دن باقی تھے اور انہوں نے ڈھیروں تیاریاں کرنی تھیں۔ اللہ اللہ کر کے اسکول سے چھٹی ہوئی اور دونوں دوست گھر کو بھاگے۔ رفیق ان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی جھنڈیاں لے آیا تھا۔ جوش و جذبے سے وہ تینوں محلے کو سجانے لگے۔

یار دیکھو تو کتنی خراب جھنڈیاں دے دی ہیں۔۔۔ رفیق غصے سے جھنڈیاں چھانٹ رہا تھا۔

“اب بس صحیح صحیح لگا لو۔۔” حماد نے مصلحتا مشورہ دیا۔ اسٹول پر کھڑا سعد صاف جھنڈیاں لگانے لگا اور جو خراب لگتیں انہیں پھینک دیتا۔

شام تک تینوں نے محلے کو بہترین طریقے سے سجایا۔ بالکل صاف صاف جھنڈیاں اور سبز جھنڈے ہوا میں لہرا رہے تھے۔

*****

اف توبہ۔ بازار میں تو اتنا رش ہے کہ اللہ کی پناہ۔۔ صالحہ اپنے پھولے ہوئے سانس کو بحال کرتے ہوئے بولی۔

لگتا ہے جیسے عید آگئی ہو۔ پورا شہر ہی دکانوں پر امڈ آیا ہے۔۔ اونچی آواز سے بولتی وہ ساس کو تفصیلات بتا رہی تھی۔

ارے۔۔ کچھ لائی بھی ہو یا نہیں؟ ساس نے پوچھا۔

جی اماں۔۔ ہما کے ہرے جوڑے کے لئے جو کپڑا پسند آیا تھا وہ ایک عورت نے جھپٹ لیا تھا۔ میں نے بھی رش میں اس کے پاؤں کو کچل دیا۔ وہ اپنا پاؤں سنبھالتی رہ گئی اور میں نے جھٹ سے کپڑا اچک لیا۔ آخر میری بیٹی کو 14 اگست پر بہترین جوڑا جو پہننا تھا۔ آنکھ مار کر کہتی صالحہ کافی حد تک پر سکون نظر آرہی تھی۔

*****

یونیورسٹی کا پوائنٹ معمول کے مطابق کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ٹیپ پر ملی نغمے تیز آواز سے بج رہے تھے۔ پوائنٹ کے باہر ہرا سفید جھنڈا ہوا سے تیز تیز جھول رہا تھا۔ مختلف گاڑیوں، بسوں، گھروں کی چھتوں کو ہرا جھنڈا زینت بخش رہا تھا۔ ڈرائیور نے ملی نغمہ تبدیل کیا۔۔۔

ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار۔۔

اونچی آواز سے بجتا یہ نغمہ پوائنٹ میں بیٹھے نوجوانوں کے جذبوں کو اجاگر کرنے کی کوشش میں تھا۔ تھکے ہارے طلباء کچھ نیند کی وادیوں میں کھو چکے تھے اور کچھ باہر کے مناظر اور نغموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ پلے لسٹ  (play list)  ختم ہوتے ہی بھارتی گانوں کی تھاپ سنائی دینے لگی۔ بس پر لگا جھنڈا اتنی ہی سرسراہٹ سے جھول رہا تھا۔ نغمے اب گانوں میں بدل گئے تھے۔ منزل قریب ہی تھی۔

*****

اور اب میں دعوت دیتی ہوں نویں جماعت کی طالبات کو کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور اپنا ڈانس پیش کریں۔ اناؤنسر نے تیز آواز میں کہا اور اپنے بال درست کرتے ہوئے اسٹیج سے اتری۔ تالیوں کی گونج میں اسماء  اور باقی سہیلیاں اسٹیج پر آئیں۔ اپنی اپنی جگہ سنبھالتے ہوئے اپنے رخ دوسری جانب کرلیے۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔

سمی میری وار میں واری میں واریاں نی سمیے

لڑکیاں اپنی کی گئی ریہرسل کے مطابق چنگھاڑتے ڈیک پر ڈانس شروع کر چکی تھیں۔

یوم آزادی کی تقریب کے انتظامات قابل ستائش تھے۔ ہر کوئی جھنڈا بنا گھوم رہا تھا۔ ہال میں موجود افراد تالیوں سے لڑکیوں کے ڈانس کو سراہ رہے تھے۔

*****

فہد آج اپنے دوستوں کے ہمراہ یوم آزادی منانے کراچی جا رہا تھا۔ نوجوان ہرے کرتے سفید شلوار میں بہترین نظر آرہے تھے۔ گاڑی کے پیچھے پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر سستانے کے لیے گاڑی روکی۔ قریبی دکان سے جوس، بسکٹ وغیرہ خرید کر پھر گاڑی میں سوار ہونے۔ بغیر کسی تاخیر کے وہ لوگ جلد از جلد کراچی پہنچنا چاہتے تھے۔ کھانے کے بعد کچرا باہر پھینکا اور تیز آواز میں بجتے ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں پر جھومنے لگے۔

آج 70 سالہ پاکستان کی خوشی ہی نرالی تھی۔

*****

آج میں ستر سال کا ہوگیا ہوں۔ ستر سالہ۔۔ لاچار۔۔ زخمی۔۔ بے بس بوڑھا۔۔ مجھے میری اولاد۔۔ میرے لوگوں۔۔ میرے عزیزوں نے ہی گویا کھا لیا ہے۔ میری عزت، میرا وقار، میری وقعت زمین پر پڑی داغدار جھنڈیاں بتلا دیتی ہیں۔ میں تو کسی کا پیر کچل کر نہیں بنایا گیا۔۔ مجھے تو پورے فخر سے حاصل کیا گیا تھا۔ جوان بیٹیوں تک کی عزتوں کو قربان کیا گیا۔ ارے مجھے تو ان جانوروں کے آنسو نہیں بھولتے جنہیں چھوڑ کر ان کے مالک اپنی جانیں بچا کر بھاگے تھے۔ بلوائیوں نے تڑپتی بلکتی ماؤں کے سامنے ان کے جوان لخت جگر بیٹوں کو قتل کیا تھا۔ اور آج ان ہی کی تہذیب اپنا کر، ان کے ناچ گانے چلا کر میرے کلیجے پر چھرے چلائے جاتے ہیں۔ ملی نغموں پر پھولوں کی طرح بانہیں کھولنے والے بچے آج گانوں کی گونج پر ناچتے ہیں۔ میری سالگرہ منانے کے لیے خود تیار ہوتے ہیں، خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ اور مجھ پہ ہی کچرا پھینک کر مجھے مزید آلودہ کردیتے ہیں۔ اگست کے شروع ہوتے ہی میں یاد آتا ہوں اور 14 اگست کے اگلے ہی دن زمین پر پڑی میری نشانی کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ میرے لوگوں، میرے جوانوں میں جوش و جذبہ نہیں ہے۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے! میں جانتا ہوں کہ ان کے جذبے بلند ہیں، ان کے حوصلوں میں طاقت ہے۔ ان کے حوصلے اور بہادری کو کوئی مات نہیں دے سکتا۔ ہاں کمی ہے تو  صرف اور صرف احساس کی۔

میں ستر سالہ بوڑھا۔۔۔اپاہج اور لاچار ہوں۔ مجھے میرے لوگوں، میرے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔

جی ہاں! میں پاکستان ہوں اور مجھے آپ کی ضرورت ہے۔

To Top